• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ 11مئی 2013ء کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہو گیا کیونکہ انعقاد سے پہلے تک بہت ہی غیر یقینی صورتحال تھی، خوف اور دہشت کا ماحول اور یہی کہا جارہا تھا کہ شاید لوگ گھروں سے ووٹ ڈالنے کیلئے نہ نکلیں لیکن ہم سب نے دیکھا کہ لوگ نہ صرف گھروں سے نکلے بلکہ پاکستان کو ووٹ بھی دیا۔ ٹرن آؤٹ 55فیصد تک رہا۔ اس بات کا کریڈٹ سب سے زیادہ جیو ٹی وی نیٹ ورک کو جاتا ہے جس نے الیکشن مہم کے آغاز سے بھی پہلے قوم کو بھرپور طریقے سے یہ پیغام دینا شروع کر دیا کہ پاکستان کو ووٹ دو۔ پاکستان کو ووٹ دینے کیلئے خوف اور دہشت زدہ ماحول سے نکالنا اسی کا کارنامہ ہے۔ گو الیکشن کے روز کراچی، پشاور، نصیر آباد، چمن اور مستونگ میں انتخابی تشدد، دھماکے اور فائرنگ سے 63/افراد جاں بحق ہوئے، یہ ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے ایک قربانی تھی۔ جیو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے اپنی نشریات کا آغاز 2002ء کے الیکشن سے کیا تھا اور قوم تک ایک بھرپور انداز میں نتائج پہنچائے پھر 2008ء میں مزید بہتر انداز میں کروڑوں ناظرین تک الیکشن نتائج تبصرے اور تجزیئے ہی نہیں پہنچائے بلکہ دوسری مرتبہ سب سے پہلا نتیجہ دینے کا اعزاز بھی حاصل کیا لیکن اس مرتبہ الیکشن 2013ء میں تو اس نے کمال ہی کر دکھایا کیونکہ اس وقت ملک بھر کے دیگر ٹی وی چینلز نے اپنے طور پر بھرپور تیاریاں کر رکھی تھیں مگر تیسری مرتبہ بھی یہ اعزاز جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے حصے میں آیا کہ اس نے نہ صرف پاکستان کا سب سے پہلا نتیجہ سب سے پہلے دیا بلکہ 72گھنٹے سے زائد الیکشن نشریات میں تسلسل اور سائنسی انداز میں ہر رزلٹ عوام تک پہنچایا۔ نتائج پہنچاتے ہوئے سب سے زیادہ احتیاط یہ کی گئی کہ عوام تک مصدقہ معلومات پہنچائی جائیں۔ گو نتائج کے اعلان کے وقت یہ بتایا جاتا رہا کہ یہ غیرسرکاری اور غیرحتمی نتائج ہیں۔ الیکشن 2002ء سے لے کر 2013ء کے جیو کے نشر کردہ نتائج کو ہی سب سے معتبر سمجھا گیا اسی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے کروڑوں ناظرین نے سب سے زیادہ یہ نشریات دیکھیں۔ جیو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور جیو جنگ گروپ کے چیئرمین بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میں تو ہر منہ سے یہ سُن رہا ہوں کہ جیو نے کمال ”الیکشن ہیڈ کوارٹر“ بنایا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام تک بروقت صحیح معلومات پہنچانے کیلئے ایک لاکھ سے زائد اس کے کارکن سال بھر سے خصوصاً پچھلے پانچ ماہ سے دن رات محنت کر رہے تھے۔ میرے لئے بھی یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں 2002ء میں کچھ دن الیکشن ٹیم کا حصہ رہا پھر 2008ء کے الیکشن میں بطور انچارج الیکشن سٹی جنگ گروپ کا م کیا لیکن اس مرتبہ تو یہ ذمہ داری کلی طور پر میرے کاندھوں پر تھی کہ جیو کے پینئرنٹ ڈپارٹمنٹ جنگ گروپ کے پاکستان بھر کے نمائندگان کی مسابقتی لحاظ سے تیاری بہت بڑا چیلنج تھا۔ جس کے لئے میں کارسپانڈنٹس نیٹ ورک کو اپ ڈیٹ کرنے کیلئے ایک سال سے زائد عرصے کیلئے کام کر رہا تھا پھر آخری پانچ مہینوں میں تو ملک بھر کے شہروں کے بھرپور دورے کئے میرے ساتھ محمد سلیمان صاحب اور جناب افتخار احمد بھی تھے۔ عوام تک الیکشن کے نتائج پہنچانے کیلئے5ہزار سے زائد افراد پر ایک خصوصی ٹیم کو تیار کیا گیا، ان کو نتائج بھجوانے کیلئے نہ صرف جدید ترین آلات فراہم کئے گئے بلکہ ان کی تربیت بھی کی گئی اور ہر طرح کے متبادل انتظامات کئے گئے کہ اگر موبائل سروس بند ہو جاتی ہے تو پھر کن ذرائع سے نتائج پہنچائے جائیں گے۔ آج ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ہمت دی کہ ہم اس چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے سرخرو ہو گئے۔ ہمارے شانگلہ سے نمائندے سرفراز خان نے سب سے پہلے این اے 31کا نتیجہ ہمیں فراہم کیا، خصوصی طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں اور میں ملک بھر سے جیو جنگ گروپ کی ٹیم اور ان کے معاونین کا خصوصی طور پر شکر گزار ہوں جو 48گھنٹے تک مسلسل جاگتے رہے اور قوم کو ان کے پسندیدہ امیدواروں کا رزلٹ پہنچایا۔ اس دوران ہمارے ایک نمائندے ساجد مجید انور کو فالج کا اٹیک بھی ہوا، ان کیلئے دعا ہے کہ اللہ انہیں مکمل صحت یاب کرے، امین۔ میں محمد سلیمان صاحب کا بہت زیادہ مشکور ہوں جن کی رہنمائی اور کوششیں ہمارے ساتھ ہر وقت شامل رہیں، اسی طرح جناب افتخار احمد کا بھی شکریہ ۔
قومی اسمبلی میں 19جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہوئی ہے۔ اب تک الیکشن کمیشن نے جو سرکاری نتائج دیئے ہیں ان کے مطابق قومی اسمبلی میں ن لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ گو ہماری ریت ہے کہ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو اس کے نتائج آنے کے ساتھ ساتھ دھاندلی کے الزامات بھی لگتے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ہونے والے انتخابات میں ہمیشہ دھاندلی ہوئی یہ دراصل سب کچھ انتخابی نظام میں خرابیوں کی وجہ سے ہوتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ بہت حد تک انتخابی اصلاحات کی گئیں جن میں سب سے اہم اصلاح ووٹر فہرستوں پر ووٹرز کی تصویر اور شناختی کارڈ نمبر درج تھا ۔ اس نے کافی حد تک انتخابی نظام کو معتبر بنا دیا ہے پھر اس مرتبہ خفیہ ہاتھ بھی زیادہ نظر نہیں آیا اور اب جو دھاندلی کی شکایات آ رہی ہیں ان کو چیک کرنا اس لئے بھی آسان ہے کہ یہ سارا ڈیٹا نادرا سے لیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ جس حلقے میں بھی ٹھوس شکایات درج کرائی گئی ہیں وہاں نادرا کے ریکارڈ سے ووٹر کے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کرائی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، ایسا کرنے سے الیکشن کمیشن پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ کراچی میں شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہا لیکن اس کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو اپنے طور پر بھی جائزہ لینا چاہئے کہ سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کرنے میں کون کونسی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر الیکشن نتائج مرتب کرنے میں سب سے زیادہ تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہوتے رہے۔ اسی طرح بہت سے ووٹرز کے ووٹ دوسرے شہروں میں منتقل کر دیئے گئے۔ بعض خواتین کے پولنگ اسٹیشن کے فاصلے دس دس کلو میٹر تک تھے۔
انشاء اللہ اب مرکز میں ن لیگ حکومت بنا رہی ہے، نواز شریف وزیراعظم ہوں گے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف پنجاب اور بلوچستان میں ن لیگ حکومت بنائے گی جبکہ سندھ میں پی پی کو حکومت بنانے کا حق ملا ہے۔ محمد نواز شریف نے بڑی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور معاشی استحکام کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس حوالے سے تفصیلاً چیزیں سامنے آتی رہیں گی۔ اس وقت صرف انہی کا ایجنڈا عوام ان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ابھی سے اس پر عملدرآمد کی تیاری شروع کر لیں اور ان کے حلف اٹھانے کے فوراً بعد بجٹ اجلاس شروع ہو جائے گا۔ انہیں اسی بجٹ میں اپنے ایجنڈے کے حوالے سے ترجیحات اور فنڈز رکھ دینے چاہئیں۔ ان کے سامنے سب سے پہلی ترجیح توانائی کے بحران پر قابو پانا، معیشت کی بحالی، آزاد خارجہ پالیسی، کراچی میں میٹرو بس اور کراچی لاہور موٹروے کا آغاز، بہاولپور صوبہ کی بحالی، جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبہ کا قیام، بلوچستان میں قیام امن اور ملک بھر سے دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ چھ ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات ان کی ترجیحات ہونی چاہئیں۔ اگر وہ ان نکات کو اپنی ترجیحات میں اولین حیثیت نہیں دیتے تو پھر ایک چیز ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اب ملک میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ 175نئے چہرے اسمبلیوں میں پہنچ چکے اور 20سیاسی خاندان شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ آئندہ ووٹ صرف اور صرف بہترین کارکردگی کی بنیاد پر ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے ووٹ دینے والوں کو سلام!
تازہ ترین