• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں راقم نے جو خدشات اور پیشگوئیاں الیکشن سے 2دن قبل کی تھیں آج ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود قوم دیکھ رہی ہے کہ جو سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں کھل کر ایک دوسرے پر لعن طعن کر رہی تھیں وہ اب سب کچھ بھول کر خیر سگالی کے جذبے کے تحت عیادت کی آڑ میں پھول پیش کر کے حکومت سازی کیلئے راہیں ہموار کر رہی ہیں۔ آدھے آدھے صفحے اور کہیں کہیں پورے پورے اخبارات کے صفحہٴ اول پر بھرے الزامات کے اشتہارات سب سیاسی ڈھونگ ثابت ہو چکے ہیں۔ البتہ سب طرف سے دھاندلیوں اور دھرنوں کی سیاست پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہی ہے خاص طور پر جن پر الزامات ہیں کہ اس جماعت کے عہدیداروں نے الیکشن کمیشن کے نامزد ریٹرننگ افسروں سے ملی بھگت کر کے اور کہیں کہیں زور بازو سے دھونس ، دھمکیوں سے دھاندلیاں کیں اور الیکشن میں کامیابیاں بھی حاصل کیں وہ بھی دھاندلیوں کے الزامات سامنے والی ، جیتنے والی پارٹی پر لگا کر اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ہر صوبے کی سیاسی جماعتوں کی پہلی کوشش یہی ہے کہ ہارنے کا سارا ملبہ جیتنے والی پارٹی پر ڈال دیا جائے اور خود کو قوم کے سامنے بے قصور ثابت کر کے زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں سمیٹ لی جائیں ۔
آخر یہ سیاسی پنڈت کیوں نہیں سمجھتے کہ اب میڈیا بھرپور کردار ادا کر کے قوم کو 5سال سے سچ اور جھوٹ کی سیاست کھول کر عوام کو آگاہ کرتا آرہا ہے جو حزب اقتدار خود اقتدار کے نشے میں عوام سے دور اور کرپشن کے قریب رہ کر صرف اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتی رہی ۔ عدلیہ چیخ چیخ کر ان کو کٹہرے میں لا تی رہی مگر قانون کی پیچیدگیوں اور بیوروکریٹس کی مدد سے ملزمان چھوٹتے رہے ۔ اربوں کے کرپشن کرنے والے عدلیہ اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آزاد ہو گئے ۔ یہ بھول گئے کہ ایک راستے سے چھوٹ گئے کیا عوام پھر اگلے 5سالوں کیلئے بے وقوف بننے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ مگر قوم نے پھر برادریوں، جاگیرداروں ، وڈیروں ، نوابوں ، مذہبی حلقوں کو ہی کامیاب کرایا اگرچہ ماضی کی مثالوں کو سامنے رکھیں تو ہر دفعہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تو حزب اختلاف میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ہوتی ہے ۔ جب الیکشن ہوتا ہے تو حزب اختلاف حزب اقتدار بن کر کامیاب ہو جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے بعد غلام اسحاق خان کے دور میں جاری رہا پھر یہ عمل پرویز مشرف کے دور میں اگرچہ ایک الیکشن تک رکا رہا مگر پرویز مشرف کے جاتے ہی پی پی پی کو اقتدار ملا تو کرپشن کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ دونوں وزرائے اعظم پر اور ان کی اولادوں پر کھربوں روپے لوٹنے کے الزامات لگے ۔ آج وہ نہ صرف الیکشن میں بری طرح ہار گئے اور اب وہ اپنے آپ کو مظلوموں میں شامل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں بلکہ استعفوں کی بارشیں کررہے ہیں ۔
کیا ماضی میں 2ڈھائی مرتبہ اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں گے ۔ فی الحال تو وہ 3صوبوں میں جوڑ توڑ کی سیاست میں لگے ہوئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن خود بے حال الیکشن کروا کر الزامات کی زد میں ہے ۔ فوج نے دعووں کے مطابق الیکشن کے دوران اپنے آپ کو دور رکھا جس کے باعث دھاندلیوں کی بھرپور وارداتیں ہوئیں جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے بعض حلقوں میں 150فیصد سے لیکر 200فیصد تک ووٹ ڈالے گئے ۔ جس کا جہاں بس چلا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ فوج کی نگرانی کا وعدہ دھرے کا دھرا ہی رہ گیا اور کام کرنے والوں نے اپنا کام بھی دکھا دیا ۔ اب ہر طرف سے واویلوں ، دھرنوں اور الزامات کی بھر مار ہے چند دنوں میں یہ ڈرامے بھی فلاپ ہو جائیں گے اور ماضی کے 66سالوں کی طرح اگلے 5سال بھی آنکھوں میں کٹ جائیں گے۔ بہرحال قوم کو جس تبدیلی کی توقع تھی اس کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکا ۔
جیسا کہ میں نے لکھا تھا کہ 10پندرہ فیصد گریجویٹ ، پڑھے لکھے شہری ، ووٹرز ، قوم کی خواہشات پوری نہیں کر سکیں گے۔ قوم اپنی مشکلوں میں ہی گھری رہے گی البتہ صرف ایک صوبے میں پاکستان تحریک انصاف اگر حکومت چلا کر عوام کی مشکلوں پر قابو پالے تب کہیں دوسرے صوبوں میں اس کا رد عمل دیکھنے میں آسکتا ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو بھی پرانے سیاستدان سب مل کر اپنے جالوں میں پھانس کر وہی کام کرائیں جن کے ذریعے وہ خود66سال سے عوام کو بے وقوف بناتے آئے ہیں۔ یہ ایک موقع قدرت نے عمران خان کو خیبر پختونخوا میں فراہم کیا ہے جہاں عوام نے بھرپور ووٹوں سے اس کو کامیاب کرایا ہے ۔ اگر الیکشن فوج کی مکمل نگرانی میں ہوتے تو شاید ان کے نتائج کچھ اور ہوتے۔ کراچی کے حلقہ 250میں ہی یہ بات بھی سامنے آجائے گی مگر میں پھر بھی چلتے چلتے یہ کہوں گا کہ جب تک قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کیا جائے گا ہمارے خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوں گے۔
دھرنوں سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا، دھاندلی کرنے والے اپنا کام کر چکے ۔ اب مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف 5سال کی کرپشن کے کیس کیا بے نقاب کریں گے؟ اور عوام کے کھربوں روپے واپس لائیں گے ؟اور عوام کی مشکلوں کا ازالہ کرسکیں گے؟ بجلی اور گیس کے بحرانوں پر قابوپا سکیں گے؟ دہشت گردی ختم کر کے پاکستان کا وقار دوبارہ بحال کر سکیں گے ؟ اب ان سے یہی عوام کی اُمیدیں باقی ہیں۔
تازہ ترین