• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمیونسٹ پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم نے فیصلہ کیا کہ انہیں انقلابِ عظیم کی سالگرہ منانی چاہئے، چنانچہ ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں پارٹی کے چیئرمین نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے کامریڈ دوستو، ذرا دیکھو انقلاب کے بعد ہماری پارٹی نے کیسے لوگو ں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔ اماںمشکایا کی مثال آ پ کے سامنے ہے، یہ بیچاری اس قدر غریب تھی کہ اِس کے پاس کپڑوں کا صرف ایک جوڑا تھا مگر اب اِس کا اپنا کاروبار ہے اور یہ پہلے سے خوشحال ہے۔ اور یہ کوتوزوف بیچارہ تو بہت ہی مسکین تھا مگر اب اِس کے پاس بیلوں کی جوڑی ہے، کھیتی باڑی کرتا ہے، خوب گزارا ہو رہا ہے۔اور یہ لفنگے بونسکی کو ہی دیکھ لیں۔ ایک نمبر کا آوارہ شخص تھا، کبھی شراب پی کر غل غپاڑا کیا کرتا تھا اور کبھی کسی کی ماں بہن کو چھیڑتا تھا مگر اب یہ ہماری پارٹی کا سیکرٹری جنرل ہے‘‘۔

یہ لطیفہ اُس دور کا ہے جب سوویت یونین اور اِس کی پروردہ ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی کی آمریت اور فسطائیت عروج پر تھی،اُس ماحول میں امریکہ او ر اس کے اتحادیوں نے کمیونزم کا تمسخر اڑا کر سوویت بلاک کے عوام کو یہ باور کروایا کہ وہ ایک جابرانہ نظام کے تابع ہیں جہاں اُن کی زندگی، آزاد ی اور مسرت کے حصول کی خواہش کوئی معنی نہیں رکھتی۔یوں توہٹلر کی نازی پارٹی اورا سٹالن کی آمریت اب ماضی کا قصہ لگتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت بدلا نہیں ہے، آج بھی ریاستیں اپنے عوام کے حقوق سلب کرنے کے لیے ویسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں جیسے اسٹالن اور آنجہانی ہٹلر استعمال کرتے تھے، فرق صر ف یہ ہے کہ اب اِس کام کے لیے جمہوریت نما فضا قائم کی جاتی ہے جس میں ایک مقبول لیڈر عوام کو یہ باور کرواتاہے کہ وہ جو کچھ کرے گا ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لیے کرے گا لہٰذا اُس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جائے۔ عوام کا یہی اعتماد امریکہ میں ٹرمپ نے اوربھارت میں مودی نے حاصل کیا۔ کسی ملتے جلتے سربراہ کا نام اگر لکھنے سے رہ گیا ہو تو معذرت قبول کریں اورمندرجہ بالا لطیفے کو دوبارہ پڑھ لیں۔

ایک ایسے ملک کا تصور کریں جہاں کے عوام کو اِس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ غیر محسوس طریقے سے ایک آمرانہ نظام میں جکڑے ہوئے ہیں، یعنی اُس ملک کا نظام جارج آرویل کے ناول’1984‘جیسا ہے جہاں ہر چیز پر نظر رکھی جاتی ہے اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ’بڑا بھائی ‘ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ایسے نظام میں اختلافی بیانیہ رکھنے والوں کو غدارکہا جاتا ہے، پروپیگنڈا کرکے حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے، جھوٹ کی تکرار کی جاتی ہے اور سچ کا پرچار کرنے والوں پر زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عموماً ایسے ملک میں عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ تمام تضادات سرے سے نظر ہی نہیں آتے کیونکہ یہ طبقہ مسلسل پروپیگنڈا کے زیرِ اثر خلوصِ نیت سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ریاست جن لوگو ں کو غیر محب وطن قرار دے کر جیل میں ڈا ل رہی ہے وہ اسی سلوک کے مستحق ہیں اور یوں یہ طبقہ خود کبھی ریاستی جبر کانشانہ نہیں بنتا۔شروع میں ہٹلر کی نازی پارٹی ایسے ہی نظریات کے پرچار سے مقبول ہوئی تھی، بعد میں جب جنگ ختم ہوئی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ تعصب میں اندھے ہو کر سچ اور جھوٹ کی تمیز بھلا چکے تھے۔ ٹرمپ کے امریکہ میں اس طبقے کی مثال ’Red Necks‘ اور متعصب سفید فام ہیں جو مہاجرین، اقلیتوں اور سیاہ فام شہریوں کوغیر محبِ وطن سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مودی کے بھارت میں انتہا پسند ہندو بھی اسی طبقے میں شامل ہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان اقلیت قابلِ گردن زدنی ہیں۔ہمارے ہاں بھی ایک طویل عرصے تک پنجاب کے بالادست طبقے کو یہ احساس ہی نہیں ہو سکا کہ اندرون سندھ، فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں کیاکچھ ہوتا ہے،اب کہیں جا کر وسطی پنجاب والوں کو جارج آرویل کا ناول کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا ہے۔

تاہم الحمدللہ، ہم ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں اور ’’اے قائد اعظم تیرا احسان ہے ،احسا ن‘ ‘ جیسے ملی نغمے سن سن کر جوان ہوئے ہیں لہٰذا ہمیں پشیمانی کی ضرورت نہیں۔ البتہ جن ممالک کے شہریوں کو آزادی اظہار کی عیاشی میسر نہیں، اُن کے لیے مغرب کے محققین نے فسطائیت اور آمرانہ نظام سے چھٹکارا پانے کے کچھ نسخے لکھ رکھے ہیں۔ مثلاً On Tyrannyمیں ٹموتھی سنایڈر نامی امریکی مصنف لکھتا ہے کہ جابرانہ نظام کوکسی شارٹ کٹ کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اِس کے خاتمے کے لیے ہر شخص کو ایک طویل جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔مصنف کے مطابق عوام کی آزادی اُن کی نجی معلومات کے تحفظ سے مشروط ہے، ریاست کا عوام کی نجی معلومات پر اختیار جس قدرکم ہوگا، اتنی ہی شہریوں کی آزادی بھی ممکن ہوگی، عوام کو ہمیشہ اِس بات سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ کوئی شخص سچائی کو مسخ نہ کرے۔ مصنف ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق 2016کے انتخابات میں ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے دعوؤں میں سے 78فیصد جھوٹ پر مبنی تھے لیکن ٹرمپ نے اِس تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا کہ لوگوں نے اُس پر یقین کرلیااور پھر اُس سے اگلے مرحلے میں اُن تضادات کوبھی ڈھٹائی سے گلے لگا لیا جن کی کوئی عقلی توجیہہ ممکن ہی نہیں تھی۔ٹموتھی سنایڈر کہتا ہے کہ اِس پورے کھیل کے آخری مرحلے میں ایسالیڈر لوگوں سے اپیل کر تا ہے کہ وہ اُس پر اعتماد کریں، وہی نجات دہندہ ہے، وہی اولیٰ الامر ہے اور مسیحا ہے جس کا انہیں انتظار تھا جبکہ حقیقت میں ایسے کسی مسیحا کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔رہی بات ہمارے جیسے ملکوں کی تو ہم ایسے نصیبوں جلے ہیں کہ اپنی بے زبانی پر بھی شکر گزار ہیں کیونکہ زبان ملنے پر بھی ہم نے اپنی بے دست و پائی کا ہی شکوہ کرنا تھا۔ ’تمنائے زباں، محوِ سپاسِ بےزبانی ہے۔۔۔ مٹا جس سے تقاضا شکوہ بےدست و پائی کا۔‘(غالبؔ)۔

تازہ ترین