• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے اندر نئے سال کے لئے کوئی بھی نئی توقع، امید اور آس نہیں تھی۔ اس لئے کہ بقول عذرا عباس آپ کی گزارش پر ہم اپنے آپ کو بھونکنے سے روکتے ہیں۔ آپ چاہتےہیں کہ ہم بھونکیں نہیں، صرف آپ کو بھونکنے دیں۔ ہماری آواز آپ کی آواز کو دبا دے گی، یہی ڈر ہے نا آپ کو؟

نئے سال میں عذرا عباس کی کلیات ’’اداسی کے گھائو‘‘، تنویر انجم کی کلیات ’’نئی زبان کے حروف‘‘، ان دو مجموعوں نے میرے اندر کی اداسی کو آنکھیں دکھائیں اور مسکر اکر چپکے سے کہا کہ تم روز ذبح ہوتے بچے، جوان بچیاں ان کے ہاتھوں بے درد انجام کو پہنچتے دیکھتی رہیں جو گھروں میں بچوں کو قرآن پڑھانے آتے تھے۔ تڑپ کر تنویر نے لکھا ’’کیوں محبت کی جائے / جب لوگ ڈھونڈ رہے ہوں۔ دوسروں کو مارنے کے نت نئے اسباب اور سوچ رہےہیں اذیت دہی کے نت نئے طریقے‘‘۔

تنویر اور عذرا، گزشتہ پچاس برسوں سے، معاشرے کے ساتھ لفظوں کی وہ جنگ لڑ رہی ہیں جس کو دنیا کے سارے عالم اور دانشورانسانی حسیت کی تضحیک کے ان دھبوں کو دھونے کی کوشش کررہے ہیں جہاں اٹھارہ سالہ سعودی انقلابی لڑکی کو، جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ہانگ کانگ کے نوجوانوں کو پابند سلاسل اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں آزادی چاہتے ہیں۔ عذرا بار بار اعلان کرتی ہے کہ گھر میں نفرت کی گیس اسلحہ بردار گھوڑوں کے ذریعہ چھوڑ دی جائے گی، جوموت کا کارندہ بن کر نفرت کو فاتح بننے کی خبر سنائیں گے۔ عذرا کی لائنیں ’’زندگی ڈھونڈتے ڈھونڈتے ناخنوں نے گوشت چھوڑ دیا، بے حسی، بے حس کے خول میں سمٹ گئی ہے‘‘۔عذرا ساتھ ہی یہ بتاتی ہے کہ اکیسویں صدی کی عورت آج کا کام کل پر نہیں چھوڑتی ، وہ ایک سوٹ کیس کی تیاری میں چند منٹ صرف کرتے ہوئے گھر سے باہر نکل جاتی ہے۔

عذرا کو وہ سارے سال یاد ہیں جب مہاجروں کے نام پر کراچی کیا، پورے پاکستان میں گلی گلی نوجوانوں کو مارا گیا، جب بلااجازت اور دلیری سے لوگوں کو گھروں میں گھس کر قتل کیا گیا اور پاکستان میں لاقانونیت کو زہر ناک نفرتوں میں ڈبو دیا گیا۔ اس ہولناک ماحول میں لکھی نظموں کو کئی دفعہ گمشدہ نظمیں کہتی ہے اور کئی دفعہ سوچتی ہے۔ یہ سال بھی لہولہان گزرا ہے/ زمین پر چلتے پھرتے لوگ جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ عذرا کی نظمیں 1981سے شروع ہوتی ہیں اور 2020تک کی غیر مطبوعہ نظموں کو 717صفحوں تک لیجاتے ہوئے کہتی ہے محبت مجھے اکثر نظر آتی ہے کچھ ڈھونڈتی ہوئی، کسی کو تلاش کرتی ہوئی۔ تنویر انجم کے سات مجموعے ’’نئی زبان کے حروف‘‘ کی شکل میں موجود ہیں۔ کون سی نئی زبان۔ وہ ہے ’’میں سنتی ہوں اب میرے جسم کے لئے فروخت، چوری یا تبادلے کا امکان باقی نہیںرہا اور اسباب ِسفر ختم ہوا ہے‘‘۔ تنویر انجم کی شاعری بہت سے زاویئے سمیٹے ہوئے ہے۔ وضاحت کرتےہوئے کہتی ہے میں اپنے الفاظ، اپنی جان کو بیچ نہیں سکتی۔ اس کی لغت چونکاتی نہیں۔ وہ تو بوسوں سے محروم گزرتے دنوں کی تعداد، یاد بھی کرتی ہے اور بھولنا بھی چاہتی ہے۔ اس لغت میں منسٹر صاحب کی پاور پوائنٹ فائل، اس نخوت کو بیان کرتی ہے جو بیوروکریسی، چھپے چہروں کو بیان کرنے سے ڈرتی ہے اور دھماکوں سے مسخ شدہ جسموں کو روزمرہ کا معمول سمجھتی ہے اور پھر اُچک کر میرے کان میں کہتی ہے مجھے رویوں سے زیادہ شاعری کی ضرورت ہے۔

مختصر نظموں میں، طویل موضوعات کوسمیٹ لیتی ہے۔ کہاں گئے میری زندگی کے باب، جنہیں پھاڑ دیا گیا، میری زندگی میں آنے سے پہلے ’’تمہارا کیمرہ نسل پرست ہے کہہ کر کالے گورے کی تمیز بلکہ نفرتوں کو آئینہ دکھاتی ہے‘‘۔ بڑے صبر کے ساتھ کہہ اُٹھتی ہے۔ ہمارے دیس میں لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے۔ دو بڑی شاعرات کے مجموعوں کو پڑھتے ہوئے مجھے نئے سال میں کچھ نئے تجربات اور شاعری کے کینوس پر لکھنے والیوں کے نئے انداز سامنے آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ فی الوقت نثر میں خوبصورت ادائیگی کو پہنے ہوئے نیلوفر اقبال کی کہانیاں اور آگے بڑھو تو ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے وہ کالم جو وہ ہم سب کے لئے لکھتی رہیں کتابی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف ڈاکٹر، دوسری طرف (بقول مردوں کے) زبان دراز، تیسرے مردوں کے فروعی مفروضوں کو چیلنج کرتی ہوئی ڈاکٹر طاہرہ لغوی، جسمانی اور نفسیاتی تشریحات کے ساتھ کبھی طنزیہ اور کبھی طبیعات کے ساتھ وضاحت کرتی ہوئی ایسے موضوعات کو چھوتی ہے جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں عورتوں کے لئے اور خاص طور پر اسلامی ممالک میں تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ تو غار میں رہتی ہیں۔ اگربچہ بدن میں نقص کے باعث ’’کھرا‘‘ ہے تو وہ بھی عورت کی غلطی، آدم بو نہیں عورت ہے اور بدصورتوں کے سارے کلینک عورتوں کے لئے۔ مختصر مگر مکمل تحریریں جن میں کبھی طنز تو کبھی حقیقت نظر آتی ہے۔اب میرے سامنے شمع خالد کی مکمل زندگی کتابی شکل میں آئی۔ مجھے تو پوری پنڈی کی تاریخ، حوالے، رشتے، شمع نے ایسے یاد کرائے کہ مجھے یہ بھول گیا، کون سے نانا کا ذکر ہے، کونسی خالہ کونسی ممانی، ہاں دو چار مرتبہ اس کا اپنے اور شوہر خالد کے بارے میں ہلکا سا حوالہ ملتاہے۔ کہیں کہیں چند سطروں میں شمع کو یاد آتا ہے کہ وہ ریڈیو پروڈیوسر رہی ہے۔ ادیبوں سے ملتی رہی ہے۔ مگر ہر وقت امی اور تمام رشتے اس کی داستان حیات کو آگےبڑھاتے رہے۔ میں شمع خالد کو ڈھونڈتی رہی۔

ڈی جی خان میں پرنسپل اور استادنیررانی شفیق نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں جتنےموضوعات، افراد اور محبتوں کو لفظوں میں ڈھالا ، اسے شفق رنگ مضامین کے عنوان سے ایک کتاب بنا ڈالی، کتاب ضخیم نہیں، مگر دل سے نکلے ہوئے الفاظ، دبستانِ ادب میں اپنا مقام تلاش کررہے ہیں۔ کتاب کے ساتھ خوشبو کا تحفہ، نیر رانی یہ زمانہ لفظوں سے اپنے زمانے کو بیان کرنے کا ہے۔ ماضی سے حال کی جانب آجائو۔ میں منتظر ہوں۔

تازہ ترین