• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جگر مرادآبادیؔ نے کہا تھا:

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل

ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

پاکستانی سیاست کے تناظر میں اہلِ خرد کا کہنا مگریہ ہےکہ یہاں جوبھی اقتدار کے بامِ بلند سے بوسہ زن ہوا،وہ یا تو کسی کے کندھے پر سوار تھایا شجربننےسے قبل اُس کی آبیاری کسی اور نے کی تھی۔

باالفاظ دیگر کوئی اپنی قوت ،صلاحیت وجوہر وہنر کے باوصف حکمران نہیں بن سکا۔ایوب خان قیام پاکستان سے قبل لیفٹیننٹ کرنل تھے اور امریکا یاتراکے بعد میجرجنرل بن گئے،برطانیہ کے بعدنئے سامراج امریکا کو اشتراکیت کیخلاف ایک ایسے حلیف کی ضرورت تھی جو اپنے عوام کو جواب دہ نہ ہو۔

بھٹو صاحب کے متعلق تو یہ تاثر عام ہے کہ وہ ڈیڈی ڈیڈی کہتے مائی باپ بن گئے۔ہم یہاں آمروںاورسیاستدانوں میں سے صرف دو کی مثالوں پر ہی اکتفاکرتے ہیں کہ باقی تاریخ ہے۔

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چونکہ یہاں حکمران بننےوالے دوسروں کے مرہونِ منت تھے لہٰذا کوئی بھی حکمران آزادانہ طور پر اپنی مرضی کے مطابق ماہ وسال نہ گزارسکا۔

ایسے حکمران جب جب اپنااختیار آ پ رکھنے کی خاطر قفس سے اُڑان بھرنے کی کوشش کرتے تواُ ن کے پرکاٹ دئیے جاتے،اس لئے ہر آنے والا اپنےپیش رو سے بھی زیادہ تابع فرمان ثابت ہوتا۔

بنابریں سول بالادستی کیلئے کئی تحریکیں سرِ راہ دم توڑ گئیں یا پھر کامیابی کی صورت میں بھی منزل پر قدم نہ پہنچ پائے،یوں یہ نظریہ عوام وخواص میں راسخ ہونے لگاکہ پاکستان میں کوئی بھی تحریک آشیرباد کے بغیر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔ہم دیکھتے ہیں کہ یا تو فضا بنائے جانے کے ساتھ ساتھ پشت پناہی ہوتی ہے، یا اگر ا یسا نہ ہو اور حالات ازخود باہم متصادم ہو تو پھر ایسی صورت میں بھی مداخلت کے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھتا،ایسا ہم میاں نواز شریف اور غلام اسحٰق خان مرحوم کے معاملا ت میں دیکھتے ہیں جس میں دونوں کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک، جو یہ تاثر لئے ہوئے ہے کہ وہ کسی کے بل بوتے کی بجائے اپنی ذات میں انجمن ہے،کی کامیابی سے متعلق آرا مختلف ہیں۔ آزاد تحریکوں کی کامیابی کے حوالے سے جب ہم تاریخ عالم پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس میں محرکین کی قائدانہ صلاحیتوں،فعال تنظیم اور عوامی پذیرائی کی تین اہم مگر ناگزیر علامتیں سامنےآتی ہیں۔پاکستان جیسی ریاست میں ان عوامل کی دیگر ممالک کے مقابلے میں اس لئے زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ یہاں عرصہ دراز سے ’اسٹیٹس کو‘اقتدار میں ہے ۔

یوں جب ہم دیکھتے ہیں تو پاکستان میں کوئی بھی ایسا راہ نما نہیں ہے جس کو’’اگرچہ مگر‘‘کہے بغیرقائدانہ سند دیدی جائے۔ اقتدار میںبار بار آنے والے یہ راہنما جب جب اقتدار سے جبری یامدت پوری کرکے رخصت ہوئے تو وہ عوام جو انہیں لانے پر خوش تھے، ان کے جانے پر بھی اتنا ہی خوش نظر آئے،یعنی وہ محبوبیت کا کوئی نقش ثبت نہیں کرسکے ۔

ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا عالم یہ رہا کہ کبھی بھی یہ ایسی تنظیم کھڑی نہ کرسکے جو مشکل حالات میں ان کیلئے کھڑی ہوسکے،بلکہ پیپلزپارٹی جو تنظیمی ساخت باخت کیلئے مشہور تھی،اس کی یہ خوبی کب کی عنقا ہوچکی۔

پچھلے دو ادوار میں میاں نواز شریف کا ایک نیا انداز سامنے آیا،لیکن مسلم لیگ جوموسم لیگ کے طور پر جانی جاتی تھی ،اسے جوں کاتوں رہنے دیا گیا۔اس کا مظاہرہ پی ڈی ایم کے لاہور کے جلسے میں پوری دنیا نے دیکھا ، یہ وہ جلسہ تھا جو پی ڈی ایم کی تحریک کا رخ متعین کرتا لیکن ہوا اس کے برعکس ۔

پی ڈی ایم کے اوسان یو ں خطا ہوئے کہ وہ باہم کسی ایک فیصلے سے متعلق ابہام کا شکار ہوگئے،لاہور مسلم لیگ کا گڑھ جاناجاتاہے ،پی پی سمیت پوری پی ڈی ایم یہ اُمید لگائے بیٹھی تھی کہ اس جلسے سےسرکار پرایسا دبائو پڑےگا کہ وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائے گی۔

سردی ودیگر وجوہات کا ادراک نہ کرنا قائدانہ صلاحیتوں پر سوالیہ نشان تو ہے ،لیکن سامنے کا واقعہ یہ ہے کہ پی پی تک کو اپنے اس موقف میں تقویت محسوس ہوئی کہ عوامی قوت سے حکومت جانے کی باتیں خوش فہمی کےسوا کچھ نہیں، اس لئےبہتریہی ہے کہ حسبِ روایت اختیارمندوں سے مزید سہولت کیلئے بگاڑ سے اجتناب کی پالیسی جاری رکھی جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ لاہور کے جلسے نے گجرانوالہ جلسے سے قائم ہونے والا یہ تاثر زائل کردیا ہے کہ عوامی انقلاب حکمرانوں کے دروبام تک پہنچا ہی جاتاہے، گویا لاہور جلسے نے حکومت کو شیر بنادیا ہے۔

اب میاں نواز شریف اور مولانا صاحب کو یہ امتحان درپیش ہے کہ وہ کس طرح عوامی قوت کو متحرک کرتے ہوئے حسب ِ خواہش تبدیلی کیلئے راہ ہموارکرتے ہیں۔

تازہ ترین