• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا خدا کرکے الیکشن خیریت سے انجام پا گئے چند دہشت گردی کے واقعات کے سوا نسبتاً ماحول پُرسکون رہا۔ لوگوں کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ پچھلے الیکشن میں جب میں الیکشن آفس گیا تو کوئی بھی نہ تھا اس مرتبہ صبح ہی صبح بہت بڑی تعداد میں خواتین و حضرات ووٹ ڈالنے کے لئے موجود تھے۔ مجھے قطار میں آدھے گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا۔ کمر کے آپریشن کی وجہ سے یہ تکلیف دہ تھا مگر قومی فریضہ کی ادائیگی کے لئے یہ بخوشی قابل قبول تھا۔
سب سے پہلے میں تمام کامیاب اُمیدواروں کو دلی مبارکباد دیتا ہوں انہوں نے بہت محنت کی اور اپنا کیس اچھی طرح پیش کیا۔ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور عمران خان کو دلی مُبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کا جیتنا متوقع تھا کہ وہاں شہباز شریف نے بہت ترقیاتی کام کئے ہیں اور عوام کی محبت و حمایت جیتی ہے لیکن ن لیگ کی جیت توقع سے زیادہ ہے۔ عمران خان اگر حادثے کا شکار نہ ہوتے تو غالباً چند اور سیٹیں جیت لیتے۔ خیبرپختونخوا میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اے این پی کو بُری طرح مار دی ہے۔ اسفندیار ولی، میاں افتخار حسین، غلام احمد بلور وغیرہ ضرورت سے زیادہ ہی امریکیوں کے وفادار ہوگئے تھے اور اپنے ہی لوگوں کو مروانے میں آگے آگے تھے۔
جیسی کہ اُمید تھی پی پی پی نے وہی پالیسی اختیار کی۔ اُنہوں نے اس پر تکیہ کیا کہ پانچ سال خوب دولت کمالی ہے اب چند سال آرام سے بیٹھ کرکھائیں گے اور آئندہ الیکشن تک لوگ ان کی ناقص کارکردگی بھول کر پھر ان کے مُردے خرید لیں گے۔ جس مہارت سے انہوں نے نفسیاتی جنگ اخبارات و ٹی وی کے ذریعے چلائی تھی اس سے انہیں اُمید تھی کہ وہ عوام کو نواز شریف ، شہباز شریف سے منحرف کردیں گے اور عوام کی حمایت حاصل کرلیں گے اس میں وہ ناکام رہے۔ ایسی نفسیاتی جنگ سے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ممالک کے الیکشن میں بہت فرق پڑجاتا اور پانسہ پلٹ جاتا مگر ہمارے یہاں ایسی چیزیں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ یہاں جلسے جلوس بہت بڑا رول ادا کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف و میاں شہباز شریف اور عمران خان کی کامیابی کا راز ان کے لاتعداد جلسے اور عوام سے رابطے ہیں، اُن کی انتھک کوششوں نے ان کو کامیاب کیا۔ کئی برس پہلے انگلستان میں الیکشن ہو رہے تھے اور لیبر پارٹی کو تمام رائے عامہ کے نتائج کی بِنا پر کامیاب ہونے کی پیشگوئی کی جا رہی تھی لیکن الیکشن سے پہلے ایک بااثر اخبار نے فرنٹ صفحہ پر نہایت بڑے بڑے حروف میں یہ لکھ دیا ”براہ مہربانی آخری انگریز ملک چھوڑتے وقت بتی بجھا دیئے“۔ اس ایک جملے نے بساط پلٹ دی اور لیبر پارٹی جس کے لئے تقریباً 10 فیصد زیادہ ووٹوں سے کامیابی کی پیشگوئی کی جارہی تھی وہ بُری طرح ہار گئی۔ اسی طرح صدر کلنٹن کا نعرہ، ”بیوقوف یہاں معاملہ معیشت کا ہے“ اور صدر اُوباما کا نعرہ ”تبدیلی پر ہم یقین رکھتے ہیں“ نے ان کو غیرمتوقع طور پر کامیابی دلائی۔ ہمارے تبدیلی کے نعرے نے کوئی کرشمہ نہیں دکھایا۔ عوام نے سوچا کہ ٹوٹا پھوٹا پرانا پاکستان ہی سستا اچھا اثاثہ ہے اس کی مرمت کر کے کام چلاؤ ورنہ نئے پاکستان کے لئے اتنی بھاری رقوم کہاں سے آئیں گی اور خدا جانے وہ رقم پاکستان کی تبدیلی پر خرچ ہو گی یا لیڈروں کی جیب میں چلی جائے گی، اس وجہ سے عوام نے محتاط و محفوظ رویہ اختیار کیا۔
قبل اس کے کہ میں آئندہ حکومت کے بارے میں تبصرہ کروں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراہیم اور ان کے رفقائے کار تمام مُبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اتنے کم عرصہ میں تمام مشکلات و مجبوریوں کے باوجود بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ میں نے اس سے پیشتر اتنے اچھے انتظامات کبھی کسی الیکشن میں نہیں دیکھے۔ ان کو خوش قسمتی سے سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، آرمی، نادرا، رینجرز، پولیس کی پوری مدد حاصل رہی۔ کہیں کہیں پریس نے بدانتظامی اور چھوٹی موٹی دھاندلی کی طرف توجہ دلائی مگر اتنے بڑے ملک میں جہاں 18کروڑ سے زیادہ عوام بستے ہیں، جہاں طویل فاصلے پر ذرائع آمدورفت و مواصلات مشکل ہیں اس قسم کے چھوٹے واقعات نظر انداز کئے جاسکتے ہیں۔ تقریباً 60 فیصد ووٹ ڈالنے کا ریکارڈ الیکشن کمیشن کا بڑا کارنامہ ہے۔
عمران خان کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ بزرگوں کو بھی الیکشن میں حصّہ لینے پر کامیابی سے قائل کیا۔ اس مرتبہ الیکشن پولوں پر لاتعداد عمر رسیدہ، کمزور اور بیمار لوگ بھی ووٹ ڈالنے آئے، اسی وجہ سے اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں نے الیکشن میں حصّہ لیا، یہ نہایت ہی خوش آئند واقعہ ہے۔
اس الیکشن میں ہمارے صحافیوں، اینکرپرسنز اور تجزیہ نگاروں نے بہت اہم رول ادا کیا۔ جیو کے سہیل وڑائچ، حامد میر، سلیم صافی، ڈاکٹر فرخ سلیم، انصار عباسی ، انصار عالم ، ندیم ملک، قاضی سعید، سمیع ابراہیم، سلمان غنی، افتخار احمد، رحیم اللہ یوسفزئی، سلیم بخاری، جاوید چوہدری، عرفان صدیقی، مجیب الرحمن شامی وغیرہ اور دوسرے کئی قابل صحافیوں نے عوام کو شعور دیا، اُن کو ان کے ووٹ کی اہمیت اور تقدس کا احساس دلایا۔ چند قابل ٹیکنوکریٹس نے ملک کو درپیش مسائل کی اہمیت، ان کی سنجیدگی اور ان کو حل کرنے کے بارے میں مشورے دے بھی دیئے ہیں، یہ خوش آئند باتیں ہیں۔
جہاں تک حکومتیں بنانے کا معاملہ ہے، پنجاب میں ن لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہے اور وہاں انہوں نے PPP کو نیست و نابود کردیا ہے جو ان کی اپنی نااہلی اور رشوت ستانی کا نتیجہ ہے۔ سندھ میں PPP حکومت بنانے کی اہل ہے اور وہ غالباً اپنے پُرانے ساتھیوں ایم کیو ایم اور فنکشنل مسلم لیگ کے ساتھ حکومت بنائیں گے۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانا پڑے گی مگر وہ پچھلی حکومت کی طرح سازشوں پر مبنی نہ ہوگی۔ خیبرپختونخوا کا معاملہ بہت نازک ہے۔ اصولاً گورنر کو PTI کو پہلے حکومت بنانے کی دعوت دینا چاہئے اور وفاقی حکومت کو قطعی دخل اندازی نہیں کرنا چاہئے مگر ہمارے ملک میں سیاسی سازشوں کی روایت ہے جس طرح پچھلی بلوچستان کی حکومت سازی تھی، ق لیگ اکثریت ہونے کے باوجود حکومت نہ بنا سکی تھی۔ اسی طرح ممکن ہے کہ دوسری تمام جماعتیں وزارتیں، مراعات حاصل کرنے کے لئے یکجا ہوجائیں اور PTI کی حکومت بنانے میں رکاوٹ کھڑی کر دی جائے۔ بلوچستان میں بھی 64 میں سے 63 کو وزیر اور مشیر بنا لیا گیا تھا اور ایک حزب اختلاف کے لیڈر کو بھی صوبائی وزیر کی تمام سہولتیں اور رتبہ دے دیا گیا تھا۔ اگر ایسی حرکت کی گئی تو یہ ہماری جمہوریت کے لئے زہر ہلاہل ہوگا اور ملک کو بہت بڑا نقصان پہنچے گا۔ ہمیں ایسی غیرجمہوری سازشوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔
وفاقی حکومت نواز شریف بآسانی بنالیں گے ان کے پاس اپنی پارٹی کے تقریباً 150 ممبران ہوں گے، 22 اور ممبران کو ساتھ ملانے میں قطعی دقت نہ ہوگی، دوسری پارٹیاں بھی ہیں اور آزاد اُمیدوار بھی ہیں۔ مسئلہ حزب اختلاف کے لیڈر کا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم اور چند آزاد اُمیدوار مل کر عمران خان کا راستہ روک سکتے ہیں اور نواز شریف، عمران خان کے مقابلہ میں پی پی پی کے نمائندے کو ترجیح دیں گے۔ اس طرح پانچ سال میں وہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی اہمیت کو ختم کر دیں گے۔
جہاں تک وفاقی حکومت کا تعلق ہے میاں نواز شریف کی طویل و دیرینہ خواہش پوری ہو گئی، چارٹر آف ڈیموکریسی، پی پی پی سے اتحاد، دوستانہ اپوزیشن، 18ویں ترمیم سب کام آئے۔ میں ان کو اس کامیابی پر دلی مُبارکباد دیتا ہوں اور ساتھ ہی میاں شہباز شریف کو جن کی انتھک محنت اور ترقیاتی کاموں نے پنجاب میں ان کو اور میاں صاحب کو اتنی شاندار کامیابی دلائی۔ میں نے ہمیشہ ان کے کام کی تعریف کی ہے اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں۔
بہت سے تجزیہ نگار اور میاں صاحب کے خیر خواہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب نے پچھلی ٹھوکریں کھا کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے، زیادہ سمجھدار ہوگئے ہیں، سیاست کی موشگافیوں کو ٹھیک سے سمجھنے لگے ہیں اور اب پچھلی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ خدا کرے یہ سب کچھ ٹھیک ہو کیونکہ ملک کے مستقبل پر اس کا انحصار ہے۔ ان کی گڈگورننس اس ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتی ہے اور ہم دوبارہ ایک پُرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان بن سکتے ہیں۔ اس کے لئے میاں صاحب کو بہت سخت محنت کرنا پڑے گی۔ یہ چانس میاں صاحب کو ہمیشہ کے لئے ایک کامیاب یا ناکام لیڈر بنائے گا۔
ایک اچھی اور کامیاب گورننس کے لئے میاں صاحب کو پچھلی غلطیوں اور پچھلے غلط مشورے دینے والے نام نہاد بہی خواہوں اور دوستوں پر سنجیدگی سے نظر ڈالنا ہوگی۔ اگر وہی مشیر، وہی ساتھی رہے تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ شہباز شریف کے مشوروں کو سب پر فوقیت دیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کیوبا میزائل کے خطرہ کے دوران ہر شخص صدر کینیڈی کو روس سے ٹکراؤ کا مشورہ دے رہا تھا اس وقت ان کے بھائی رابرٹ کینیڈی نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ روس کو عزّت و وقار بچانے کا موقع دو تاکہ وہ بغیر بے عزّتی محسوس کئے میزائلز اُٹھا لے۔ نتیجہ میں امریکہ نے روس سے وعدہ کیا کہ وہ بزور طاقت کبھی کیوبا کی حکومت کا تختہ نہیں اُلٹے گا۔ دنیا تیسری جنگ عظیم سے بچ گئی اور 50 سال میں امریکہ نے کبھی بھی کیوبا کا تختہ اُلٹنے کی کوشش نہیں کی۔ میاں صاحب کی کامیابی کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ درباریوں کو کھانے تک محدود رکھیں اور قابل و تجربہ کار ٹیکنوکریٹس کو حکومت کے ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری دیں۔ ان کی کامیابی اور اچھے کام سے میاں صاحب کی کامیابی اور شہرت ہوگی۔
ملک کے دو اہم و عزیز دوستوں جناب ڈاکٹر فرخ سلیم اور انصارعباسی صاحب سے جو اعلیٰ تجزیہ نگار ہیں درخواست ہے کہ ابھی تمام چیزیں تازہ ہیں براہ مہربانی ان تمام لیڈروں (نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، فضل الرحمن، الطاف حسین وغیرہ) کے الیکشن میں عوام سے کئے گئے وعدوں کا وائٹ پیپر تیار کر لیں اور ہر تیسرے ماہ اس کو شائع کرکے ان لیڈروں اور عوام کو ان کی تکمیل اور ان پر عمل کے بارے میں مطلع کرتے رہیں یہ ایک اعلیٰ عوامی، ملکی خدمت ہوگی۔
تازہ ترین