• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصہ قبل ایک وفاقی ایجنسی کی طرف سے پی پی پی حکومت کی ایک با اثر خاتون اور آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کے درمیان فون پر ہونے والی مبینہ گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا جس کی تفصیل ہمارے ایک سینئر رپورٹر کو موصول ہوئی۔ دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے ہمارے ملک میں کرپشن کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے جس کے سدباب کے لیے گیارہ مئی کے نتیجے میں بننے والی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اگر فوری اقدامات نہ کیے تو ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اصل نام اور عہدوں کو ظاہر کیے بغیر سابق حکومت کی با اثر خاتون اور آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے افسر کے درمیان گفتگو کا حال سنیے:
افسر بااثرخاتون سے بات کرنے کے لیے اسلام آباد کی ایک اہم سرکاری رہائش گاہ کے ٹیلی فون نمبر پر کال کرتا ہے جس پر اُسے جواب دیا جاتا ہے کہ میڈم میٹنگ میں مصروف ہیں۔ شام چھ بجے افسر نے دوبارہ کال کی اور کہا کہ اُس نے میڈم سے ضروری بات کرنی ہے جس پر اُس کو ٹیلی فون پر میڈم سے ملا دیا گیا۔ میڈم نے افسر کا حال چال پوچھتے ہی افسر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ تم بہت جھوٹے انسان ہو دوبارہ مجھے کبھی فون کرنے کی جرأت نہ کرنا۔ افسر میڈم سے معافیاں مانگنا شروع کرتا ہے اور منتیں ترلے کرتے ہوئے میڈم کو کہتا ہے کہ جو آپ نے حکم دیا تھا اُس کا بندوبست کرنے میں تھوڑا سا ٹائم لگ گیا ہے۔ اب وہ ساری رقم میرے پاس پڑی ہے۔ آپ ناراض نہ ہوں میں ابھی آپ کے پاس حاضر ہوتا ہوں۔ میڈم نے جواب میں کہا کہ ادھر آنے کی ضرورت نہیں ہے (پیسہ) ڈاکٹر ..... کو پہنچا دو۔ افسر نے کہا کہ میڈم میں ادھر ہی رہتا ہوں جہاں ڈاکٹر رہتا ہے میں اسکو ابھی پہنچا دیتا ہوں۔
اس کے بعد افسر ایک سرکاری نمبر پر فون کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ نوید... کدھر ہے۔ جواب ملتا ہے کہ وہ باتھ روم تک گیا ہے۔ افسر دوبارہ کال کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ جو 15 تاریخ کو پانچ افسروں کا تبادلہ کیا تھا جس میں کوئٹہ والے بھی شامل تھے وہ سوموار کو صبح واپس لے لینا اور بعد میں میرے سے منظوری لے لینا۔ اس پر ماتحت افسر سے پوچھتا ہے کہ سر کیا انہوں (اُن افسروں) نے سامان پہنچا دیا۔ افسر نے سوال پوچھنے والے سے کہا پاگل ایسی باتیں فون پر نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی افسر نے فون بند کردیا۔
اس کے بعد آڈٹ ڈپارٹمنٹ کا افسر ملتان کے ایک لوکل نمبر پر فون کرتا ہے جس پر اُس کی ایک سابق اعلیٰ حکمران سے بات ہوئی۔ اس گفتگو کے دوران افسر میڈم کو گالیاں دیتے ہوئے دوسری طرف سننے والے کو کہتا ہے کہ آپ کے جانے کے بعد25 کروڑ دیا تھا اور اب ڈیمانڈ آئی ہے کہ 20کروڑ روپے اور دو۔ اُس نے مزید کہا کہ آپ نے مجھ پر مہربانی کی تھی لیکن یہ (میڈم) اب اسکا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں اپنے افسروں میں بھی بدنام ہو رہا ہوں ......۔ فون وصول کرنے والے نے افسر کو کہا دیکھو پریشانی کی ضرورت نہیں۔ ایسا وقت آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔فون وصول کرنے والا افسر کو مزید کہتا ہے میں تھوڑے دنوں میں اسلام آباد آوٴں گا تو تفصیل سے بات کریں گے۔ اس کے بعد فون وصول کرنے والا مزید کہتا ہے کہ نگراں حکومت آنے سے پہلے میری فیملی اور بچے لندن جانا چاہتے ہیں۔ اُدھر کوئی ہے تو نہیں۔ افسر اس پر کہتا ہے کہ آپ کے لیے میں حاضر ہوں۔ اس کے بعد فون سننے والا افسر کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جلد ملنے کا وعدہ کرتے ہوئے فون بند کر دیتا ہے۔اب یہ آنے والی نئی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسی مبینہ کرپشن کا نہ صرف کھوج لگائے بلکہ اُن حالات کا بھی جائزہ لے جن کی وجہ سے سرکاری افسران کو کرپشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور عام حکومتی تعیناتیاں بھی رشوت یا اثرورسوخ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ جب سرکاری مشینری اس قدر سیاست زدہ ہو جائے گی اور تعیناتیاں رشوت اور اثرو رسوخ کی بنیاد پر کی جائیں گی تو پھر پاکستان کا وہی حال ہو گا جس کا آج ہمیں سامنا ہے۔ سرکاری مشینری کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی حکومتیں خصوصاً میاں نواز شریف کی وفاقی حکومت سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں جس کے لیے سرکاری افسران کی تعیناتیاں ایک شفاف سسٹم کے مطابق کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری افسروں کی کسی بھی عہدے پر تعیناتی کو تحفظ فراہم کیا جائے تا کہ سرکاری افسران کوعہدہ کی کم از کم مدت پورا کرنے سے پہلے اس بنا پر تبدیل نہ کیا جا سکے کہ وہ حکمرانوں اور سیاسی وڈیروں کے غیر قانونی حکم ماننے کے لیے تیار نہیں یا وہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر کرپشن کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سرکاری افسران کی ایک بڑی تعداد حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک کو نوچ نوچ کر کھاتے رہیں گے۔
تازہ ترین