• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2005ء میں سیاست سے کنارہ کشی کے بعد سے ایم کیو ایم کے معاملات میں مداخلت سے گریز کیا۔ میں نے اپنے سات سال قبل شائع ہونیوالے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگرچہ مہاجر سیاست کا بانی میں اسلئے ہوں کہ حیدرآباد کا شہری ہونے اور وہاں جئے سندھ کی تحریک کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک سیاسی جدوجہد کی ضرورت درپیش تھی، پہلے جئے سندھ کی پُرتشدد یلغار کو مہاجر، پنجابی و پٹھان اتحاد بنا کر روکا اور بعد میں مہاجر قومی موومنٹ کی پیدائش کے بعد اس کو قومی دھارے میں لانے اور اُنکو اس وقت کے موقف پاکستان سے علیحدگی یا مہاجر بزرگوں نے ہمیں کیا دیا کا جواب دینے کی کوشش کی تاہم مہاجروں کو قبائلی معاشرے میں رہنے کیلئے اسلحہ کی ضرورت اور اُنکے سخت رویہ کیساتھ ساتھ عوام کے شرافت کی سیاست کو رد کرکے ایم کیوایم کا ساتھ دینے پر سیاست میں رہنے کا جواز باقی نہ رہا تھا۔ ضروری ہوگیا تھا کہ جن کو مینڈیٹ ملا اُن کو ہی لیڈر رہنے دیا جائے۔ اُس کو ڈاکٹر عمران فاروق جو اس وقت ایم کیوایم کے جنرل سیکریٹری تھے الطاف حسین کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے مجھے ”عظیم لوگوں“ میں شامل کر لیا جبکہ میرا موقف ایم کیو ایم کے بارے میں یہ تھا جن لوگوں نے ان کو ووٹ دیا وہ جانے اور ایم کیوایم جانے۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے کئی اچھے کام کئے اُس کی تعریف بھی کی مگر مشورہ سے گریز کیا۔اب اس وقت جس مقام پر ایم کیوایم کھڑی ہے، اس میں اُس کا چہرہ زیادہ کرخت دکھائی دے رہا ہے، اُس کو نرم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سیاسی میدان میں کئی پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں مگر ایم کیوایم کو مزید نرم اور جاذبیت پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، اُسے سبک اور پرکشش بیک اپ بھی چاہئے جو نقصان کی صورت میں اُس کی مدد کو آئے۔ الیکشن میں کسی ایک جماعت کے مظاہرے سے گھبرا کر پاکستان سے علیحدگی کی بات مشروط طور پر کرتے ہوئے بھی لوگ مشتعل ہوجاتے ہیں اور اس وقت کلفٹن کے پل کے اس طرف رہنے والوں کے مظاہروں سے ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو کر وہ سخت الفاظ ادا کرتے ہیں تو وہ بھی ایم کیوایم کے حق میں نہیں جاتے۔ اگرچہ ایم کیوایم ایک حقیقت ہے مگر ساتھ ساتھ اُس کے کئی کمزور پہلو سامنے آگئے ہیں۔ ہر کام جبر اور دباوٴ سے نہیں ہو سکتا۔ پہلے ڈیفنس اور کلفٹن کے افراد اور نوجوان میدانِ سیاست میں نہیں آتے تھے مگر اب وہ آگئے ہیں تو اُن کو روکنا اور اُن کو دھمکی دینا کوئی مثبت تاثر نہیں چھوڑتا، کہے ہوئے الفاظ واپس نہیں آتے۔ اگرچہ اس کی تردید ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ اگر شہری اشرافیہ کے بچے جاگ گئے ہیں تو اُنکو دل سے قبول کرنا چاہئے ورنہ وہ دھمکی سے نہیں رکیں گے جس سے ایم کیو ایم ایک دفعہ پھر مشکل سے دوچار ہوجائے گی۔ساری دُنیا بھی نوٹس لے گی اور لے رہی ہے، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی متحرک ہوگی اور پاکستان و سندھ کی انتظامیہ کو بھی متحرک ہونا پڑیگا اور یہ دباوٴ ایم کیوایم کے لئے کافی مشکل پیدا کریگا کیونکہ یہ بات ضرور ہے کہ کئی جرائم پیشہ افراد یا پُرتشدد سرگرمیوں کے ساتھ ایم کیوایم کے سیاسی چہرے کو خراب کرنے میں اثرانداز ہورہے ہیں۔ سیاسی چہروں میں فاروق ستار، رضا ہارون، محترمہ نسرین جلیل، فیصل سبزواری، رضوی صاحب اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے علاوہ دوسرے افراد انتہائی اہم کردار ادا کررہے ہیں اور ایم کیوایم کے سیاسی اور نرم چہرے کو سامنے لا رہے ہیں مگر پھر بھی کسی چھوٹی سی تکلیف کے موقع پر ملک کے بارے میں کچھ الفاظ کہنے سے یہ چہرہ معدوم ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کرتا ہوں اور یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ایم کیوایم کو اپنی ہیئت کو بہتر بنانیکی ضرورت ہے۔ اس کا میڈیا کا بندوبست اچھا ہے، دھمکیوں سے خراب ہورہا ہے۔ یہ 80ء، 92ء کی دہائی کا میڈیا نہیں ہے اور نہ ہی میڈیا اکیلا رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا اس کیلئے بھی بہت مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اس لئے میڈیا پر سختی سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو ساری دُنیا اور خصوصاً برطانیہ میں ایم کیوایم کو دباوٴ کا شکار کرسکتے ہیں۔ وہاں بھی اداروں میں جو کشمکش چل رہی ہے وہ بھی معاملات بگاڑے گی۔ جو چیز اُن کیلئے مناسب ہے وہ یہ کہ دھمکیوں اور زبردستی کے عمل سے پرہیز کریں اور زیادہ سیاسی ہوجانے کا مظاہرہ کریں۔ میاں نواز شریف کو پنجاب کی پارٹی کہنا درست نہیں ہے اسلئے بھی کہ اس دفعہ پی پی پی نے پنجاب کا سخت استحصال کیا اور ان کو دباوٴ کا شکار کیا، بجلی سے محروم کیا، وہاں پر کئی قسم کی فلیتے لگا دیئے تو وہ بھی اٹھ سکتے ہیں۔ پھر ایم کیوایم کے جلسوں کے انعقاد میں پنجاب حکومت نے کوئی خاص مخالفت نہیں کی تاہم لگتا ہے کہ الطاف حسین کا بیان پریشر حکمت عملی کا مظہر تھا اور وہ اُن کو بتانا چاہتے تھے کہ اگر ایم کیوایم کو اُردو بولنے والوں کی پارٹی کہا جاتا ہے تو وہ پنجابی بولنے والوں کی پارٹی ہیں۔ گو یہ ایک قسم کی سیاسی چال تھی مگر اسے بہتر انداز میں بھی کہا جاسکتا تھا اور وہ زیادہ متاثر کن اثر ڈالتا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھی جائے کہ اسٹیبشلمنٹ نے کراچی میں کوئی ایسی مداخلت نہیں کی جو ایم کیوایم پر ضرب لگاتی اگرچہ اس کے اسباب و علل موجود تھے، اس طرح اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اُن کی طرف نرم گوشہ بوجوہ نظر آتا ہے۔ ویسے بھی میاں نواز شریف سندھ میں مشکلات کا شکار رہیں گے مگر نواز شریف سندھ حکومت کو مشکلات میں ڈالنے کی پوزیشن میں بھی آگئے ہیں۔ قوم پرست جماعتیں اور پیرپگارا گروپ اُن کے ساتھ ہیں۔ یوں ایم کیوایم کو بہت احتیاط کے ساتھ معاملات کو چلانے کے لئے اپنے بارے میں اس تاثر کو گہرا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک سیاسی پارٹی ہے ورنہ معاملات خرابی کی طرف مائل ہیں۔
تازہ ترین