• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کئی سو گھنٹے کی تھکا دینے والی ایکسرسائز تھی۔
مگر رہی بے نتیجہ۔ اس کی کمیٹی اپوزیشن کے مطالبے پر بنائی گئی تھی۔ جس میں میرے علاوہ وزیرِ خزانہ، وزیرِ برقیات، وزیرِ نجکاری اور صوبائی رابطے کے وفاقی وزیر حکومتی بینچوں کی جانب سے جبکہ اسحاق ڈار، پرویز رشید اور سردار مہتاب اپوزیشن کے نمائندے تھے۔ کمیٹی کا ایجنڈا مسلم لیگ نون کی طرف سے قومی تعمیرِ نو کے نکات پر مشتمل تھا اور کمیٹی کا کام تھا اس پر عملدرآمدکے لئے روڈ میپ دینا۔اس سمت میں کافی پیشرفت ہوئی مگر اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کی مکمل غیر سنجیدگی کی وجہ سے بیوروکریسی پاکستان کے اداراجاتی ڈھانچوں میں تبدیلی اور اچھی حکمرانی کے لئے کی جانے والے منتخب جمہوری نمائندوں کی اس بے لوث اور مخلصانہ کوشش کو سبوتاژ کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی۔ اس دوران مجھے پاکستان کے معاشی منیجروں کی پیشہ ورانہ گہرائی، ان دیسی گوروں کے رویوں اور بظاہر کروفر سے بھرپور با اختیار لگنے والے ان منیجروں کی اپنے غیر ملکی آقاؤں کے سامنے بے بسی کی ایسی کہانیاں دیکھنے اور سُننے کو ملیں جن پر کوئی صاحبِ طرز لکھاری حقیقی واقعات پر مشتمل ” قتل جو نہ ہو سکا“جیسا ناول لکھ سکتا ہے ۔
اس وقت میری نظر اُس 100 دن کے قومی ایجنڈے پر ہے جو عمومی اندازے کے مطابق اسحاق ڈار یا سرتاج عزیز کی مشاورت سے بنے گا۔ اس لئے اس کے خدوخال وکالت نامہ کے آغاز میں مذکور، اختصاریہ سے ظاہر ہیں۔ میں معاشیات کا تب سے طالب علم ہوں جب سے میں نے معاشیات میں اپنی ماسٹر ڈگری مکمل کی۔ لہٰذا میں نہیں چاہتا کہ پاکستان معاشی میدان میں دائرے کا سفر جاری رکھے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشائی ترقیاتی بینک سمیت قرضے دینے والے عالمی شکاری جو کچھ پاکستان جیسے ملکوں کو دیتے ہیں اسے معاشیات کی زبان میں Bait-aid کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہیں اُوپر پنیر کا ٹکڑا لیکن اندر مچھلی کا گلا کاٹ کر اُسے آگ کے اُوپر سیخ میں پرونے کے لئے استعمال ہونے والا کانٹا۔ جن ممالک نے اندرونی مسائل کے حل کے لئے”ہوم میڈ“ راستے اپنائے وہ چین ہو ملائیشیا، کوریا، جاپان یا جرمنی عالمی جنگیں معاشی پابندیاں کروڑوں ٹن بارود اور جنگِ افیون سمیت ایٹم بم بھی اُنہیں ترقی کرنے سے نہیں روک سکے۔ اگر پاکستان کی قیادت ہمارے معاشی مسائل کے حل کے لئے ” میڈ ان پاکستان“ پالیسی بنائے اور اُس پر دیانتداری سے چل پڑے تو ہمیں ترقی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟آئینی طور پر موجودہ جمہوری حکومت پانچ سال کیلئے منتخب ہوئی ہے۔ اس لئے بظاہر درست طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے اور اگر آنے والوں کو جانے کی جلدی نہ ہو تو اُنہیں بھجوانے والے کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پانچ سالوں کیلئے مسائل کے مارے ہوئے غریب لوگوں کو عزت، حفاظت، صحت، تعلیم اور روزگار فوری طور پر کیسے مل سکتا ہے؟ یہ سادہ سا سوال ان خوابوں کا مجموعہ ہے جو الیکشن مہم کے دوران سیاسی قیادت نے قوم کو ڈنکے کی چوٹ پر سنائے ہیں۔ یہ خواب تعبیر پائیں گے یا بکھر جائیں گے؟ اس کا فیصلہ حکومت سازی، حقیقی اپوزیشن کی تعیناتی اور 100 دن کے حکومتی ایجنڈے سے پوری طرح واضح ہو جائے گا لیکن میں ان شہریوں میں سے ایک ہوں جو بھرپور مصروفیت کے باوجود اپنے لئے سبزی فروٹ اپنے ہاتھوں سے اُگاتے بھی ہیں اور مارکیٹوں سے خریدتے بھی ہیں۔ ظاہر ہے میرے جیسے پاکستانیوں کے لئے ملک سے اور اس معیشت یا معاشرت سے عارضی یا مستقل فرار کا کوئی راستہ نہیں۔چنانچہ میرے خیال کے لوگ چاہیں گے کہ آنے والے پانچ سال جمہوریت کیلئے اِک گناہ اور سہی، پھر وہ بھی بے لذت ثابت نہ ہوں بلکہ نتیجہ خیز ہوں۔ اگلے پانچ سالوں کے لئے معیشت کا تکنیکی روڈ میپ تو ہمیشہ کی طرح اب بھی محکمہ خزانہ کے کلرک ہی بنائیں گے لیکن پاکستانی معاشرت سے جُڑی ہوئی معیشت کے تین پہلو ایسے ہیں جنہیں ہائی لائٹ کرنا قومی ضرورت ہے اور اُنہیں علیحدہ علیحدہ سمجھنا بھی۔ ان میں سے پہلا مسئلہ ہے اندرونی بچت یا ڈومیسٹک سیونگز کا۔ پاکستان بدقسمتی سے ایک ایسی معیشت ہے جس کی سانس چلانے کے لئے کمر توڑ بیرونی قرضوں کے ساتھ ساتھ سماج توڑ اندرونی قرضے اور کاغذی کرنسی کا سہارا لیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں اندرونی بچتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ملکی معیشت جب سے بینکوں کے بابوؤں کے قبضے میں گئی اور قومی بینکاری کو نجکاری کی بیماری لگائی گئی تو اس دوران برسرِ اقتدار آنے والی ہرحکومت نے کار فیکٹریز کی طرح بینکوں کے مفادات پر پاکستانیوں کے مفادات کو کھلے دل سے قربان کیا۔ اس تناظر میں قابلِ عمل تجویز یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقات، پینشنروں، بیواؤں، فکسڈ انکم گروپس اور خواتین سمیت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے قومی بچت کے سرکاری محکموں اور تمام بینکوں میں حقیقی مالیاتی اِداروں کے منافع کے برابر منافع دیا جائے۔ اور اندرونی بچتوں کی قومی مہم چلائی جائے بلکہ 2014ء کو قومی بچت کا سال بھی قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو اپنی مدد آپ کے تحت بیس کروڑ لوگ بنیادی ابتدائی سہارا فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اسکولوں ،کالجوں، یونیورسٹیوں میں ایک روپیہ بچت اسکیم پر بینک اور مالیاتی ادارے اچھے انعامات اور اسکالرشپس کا اعلان کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کشکول جسے ہر دور کی اپوزیشن نے توڑنے کا اعلان کیا اور ہر دور کی حکومت نے سینے سے لگائے رکھا اسے آخرکا ر توڑا جا سکتا ہے۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دوسرا راستہ جس کی نشاندہی کروں گا وہ ٹوٹے ہوئے کشکول کو ہمیشہ کیلئے دفنا دینے کا راستہ ہے لیکن اگر چھیاسٹھ سالہ روٹین کے مطابق یہ کام بھی تاریخی ”سی بی آر کی ذہنیت“ کے سپرد کیا گیا تو اس کا انجام پچھلی اسکیموں سے کئی سو گنا زیادہ حسرت ناک ہو گا۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں سڑکوں پر دوڑنے والے ٹرک، ٹرالر، بس ، ویگن، ہائی ایس، کاروں، لینڈکروزروں، جیپوں اور موٹرسائیکلوں کی تعداد لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہے مگر ان میں سے ٹیکس دینے والے درجنوں میں ہی ہیں لہٰذا ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے پہلا حق دار طبقہ وہ ہے جسے روز سڑکوں پر نکلنا ہے، نہ وہ چھپ سکتا ہے نہ وہ بھاگ سکتا ہے۔ ذاتی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کو فوری طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے ہر شہر کے تعلیمی اداروں کو حکومت اس کارِ خیر میں پارٹنر کے طور پر شریک کرے، انہیں کمپیوٹر فراہم کرے۔ ہر کنٹونمنٹ، ہر میونسپلٹی اور ہر شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر خصوصی الیکٹرانک ناکے لگائے جائیں جہاں ان گاڑیوں کو چند ہفتوں میں رجسٹر کیا جا سکتا ہے اور ان کے وہ مالکان جو ٹیکس نہیں دیتے اُنہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر دوڑنے والی جرائم پیشہ افراد کی نان کسٹم پیڈ، چوری کی گاڑیاں اور چھین کر ہائی جیک کی جانے والی کاریں بھی اور تیزی سے پھیلنے والے اغوا برائے تاوان کے خوں آشام جرائم کو کنٹرول میں لایا جا سکے گا۔ اگر یہ کام نوجوانوں کی ٹاسک فورس بنا کر کرایا جائے تو چند ہفتوں میں اتنے لوگ ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے جتنے پچھلے چھیاسٹھ سالوں میں بھی نہیں آ سکے، روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
تیسرا پہلو بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں کروڑوں لوگ بینکوں کی ہزاروں شاخوں میں اکاؤنٹ ہولڈر ہیں۔ اگر ان بینکوں سے اکاؤنٹ ہولڈروں کے کوائف قانونی طریقے پر لئے جائیں تو ملک کی اپر مڈل کلاس اور امیر آبادی کا ایک بڑا”جلسہٴ عام“ ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔
ضابطہٴ فوجداری کے مطابق اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر ضلع کے سیشن جج سے متعلقہ اہلکار بینکوں کے کوائف حاصل کرنے کیلئے تحریری حکم نامہ لے سکتے ہیں۔
اگر پاکستان کو اصلی فلاحی ریاست کی طرف اپنا سفر شروع کرنا ہے تو پھر ہاریوں اور کاشتکاروں کو چھوڑ کر وہ جاگیردار جن کا ایک خربوزہ ایک سو پچاس روپے میں، کیلا دس روپے میں اور کھیرا پانچ روپے میں بکتا ہے انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا۔ ٹیکس کے موجودہ ظالمانہ نظام میں صرف اُن پر بوجھ لادا جاتا ہے جو ٹیکس دینے کے گناہگار ہیں۔ پانچ سال کے لئے ٹیکس کلچر کو طرزِ حکومت کی بنیاد بنا کر پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔کاغذی کارروائیاں صرف” ٹائیگر آف پیپر“ پیدا کر سکتی ہیں، ایشیئن ٹائیگر نہیں۔ سرمایہ داری، جاگیرداری اور چور بازاری کے ہاتھوں لٹے ہوئے عوام زبانِ حال سے پکار رہے ہیں جبکہ سرزمینِ وطن اسٹیٹس کو پر سلگ رہی ہے۔ تیس جولائی 1956ء کے روز عوام کی زبان لکھنے اور بولنے والے شورش کاشمیری نے آج کے طبقاتی پاکستان کی تصویر کھینچی تھی۔ کیا یہ تصویر بدلنے جا رہی ہے؟
یارو! ہمارا خون روا ہے جواب دو
آخر یہ کس خطا کی سزا ہے جواب دو
محنت گزار مانگ رہے ہیں معاوضہ
کیا تم میں کوئی عبدِ خدا ہے جواب دو
سر مستِ اختیار ہیں افرنگ کے غلام
اپنے لئے یہ سیلِ بلا ہے جواب دو
راعی لپک رہے ہیں رعایا کے مال پر
کیا اب بتوں کا نام خدا ہے جواب دو
تازہ ترین