• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور متوقع نئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے چند روز قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی عیادت کرنے ے موقع پر ان سے فرینڈلی میچ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جسے ہر طرف سے سراہا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ باغ جناح میں کرکٹ کا شوق پورا کرنے والے میاں نواز شریف کس حد تک عمران خان کو اپنے شیشے میں اتارتے ہیں اور عمران خان کس حد تک سپورٹس مین سپرٹ کے جذبے سے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس بارے میں معاملات آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔ فی الحال تو عوام نے اس بات کو سراہا ہے کہ دو بڑی سیاسی قوتوں نے آپس میں بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کے جو حالات ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی تمام قومی سیاسی جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس بلائیں، جس میں پاک بھارت تعلقات، پاک امریکہ امور، امن و امان کی صورتحال، آئی ایم ایف سے نئے قرضہ کے رموز مہنگائی میں کمی، انرجی بحران کے حل کے لئے فوری اقدامات سمیت مختلف امور پر ان کو اعتماد میں لیں۔ ان کے علاوہ گورننس کی بہتری کے لئے میرٹ کی ایسی موثر پالیسی بنائیں جس سے نہ صرف تقرر و تبادلے بلکہ ہر کام میں میرٹ پر کام کو یقینی بنائیں۔ اس سے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان کے بارے میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے کئی خدشات دور کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان سے فرینڈلی میچ کے حوالے سے قومی سطح پر مفاہمت اور مل جل کر نظام چلانے کے لئے ایسا پلان بنائیں جس سے کرکٹ یا کھیل کے نام پر مختلف قومی امور پر اتفاق رائے کا ماحول پیدا ہو جائے۔ میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم سمجھتی ہے کہ اس وقت پاکستان کو ایک سے زیادہ معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مقابلہ قومی سطح پر رول آف لاء اور میرٹ کے نظام کو اپنانے سے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی کرکٹ سے دلچسپی کا تعلق ہے، وہ باغ جناح میں کرکٹ کھیلنے کے پرانے شوقین ہیں۔
گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم ہونے کے دنوں میں وہ پاکستان ریلوے کی طرف سے ایک فرسٹ کلاس کرکٹ میچ بھی کھیل چکے ہیں۔ ہم اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں وہ ویسٹ انڈیز اور انگلستان کے خلاف ایک ایک آزمائشی میچ بھی کھیل چکے ہیں۔ کرکٹ کے شوقین کئی افراد بتاتے ہیں کہ باغ جناح میں انہیں زیادہ رعایت کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا موقع فراہم کیا جاتا تھا۔ پھر اس گراؤنڈ میں ایک روز وہ کرکٹ کھیلتے کھیلتے یہاں سے گورنر ہاؤس جا کر امریکی صدر سے بات کرنے کے بعد امریکہ چلے جاتے ہیں، جہاں وہ امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقا ت کرتے ہیں جس میں امریکی صدر انہیں ایٹمی دھماکے کرنے سے روکتے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں ذاتی اور حکومتی سطح پر 500 ملین ڈالر اور 5 ارب ڈالر کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس بارے میں صدر کلنٹن اپنی سوانح عمری میں لمبی تفصیلات دے چکے ہیں۔ کرکٹ ڈپلومیسی کے حوالے سے صدر ضیاء الحق اور پھر صدر مشرف بھی بھارت کے دورے کر چکے ہیں، جبکہ ایک دورہ سابق وزیراعظم گیلانی بھی اس پس منظر میں کر چکے ہیں۔ اس طرح اب کرکٹ ڈپلومیسی بھارت کو بجائے اندرون ملک شروع ہونے والا ہے۔ اس کے لئے میاں نواز شریف اور عمران خان میں کرکٹ فرینڈلی میچ کب اور کیسا ہوتا ہے؟ اس سلسلہ میں دونوں لیڈروں کو سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اپنے اپنے مشیروں کی بجائے خود فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں عمران خان کو ذرا گہرائی میں سوچنا ہو گا کہ اگر وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو انہیں کیا حاصل ہوتا ہے اور کیا کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف نے سیاسی ذہانت سے بال عمران خان کی کورٹ میں پھینک دیا ہے، جبکہ اس میچ یا تعلقات میں بہتری پر سرمایہ کار اور معاشی ماہرین مطمئن نظر آ رہے ہیں کہ سیاسی حالات میں بہتری کے بعد اب میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو عوام کو فوری طور پر بڑا ریلیف دینا ہو گا۔ یہ تو نئی حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں بزنس مین طبقہ کی حمایت حاصل ہے، مگر جب حکومت نے وسائل میں اضافہ کرنا ہے تو کیا یہ طبقہ ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے اور ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے پر ان کی پالیسیوں سے اتفاق کرے گا۔ نئی حکومت کو اپنے پالیسی بیان میں اخراجات میں کمی، چاروں صوبوں کو یکساں مالی حقوق دینے، جہازی سائز کی کابینہ نہ بنانے اور ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے موثر اور قابل عمل اقدامات کا اعلان کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے قوم پہلے 100 دن میں حکومت سے خاصی توقعات رکھے ہوئے ہے، جبکہ نظر تو یہ آ رہا ہے کہ اقتصادی مسائل اور معیشت بحالی کے لئے دن یا ہفتے نہیں، کئی سال لگ سکتے ہیں۔ صرف ا ن کی ترجیحات کے تعین سے عوامی مشکلات حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تازہ ترین