• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن ہائی کورٹ میں 17سال سے زیر سماعت مقدمہ ہارنے کے بعد پاکستان ہائی کمیشن کی نیب کی طرف سے برطانوی اثاثہ ریکوری فرم براڈ شیٹ ایل ایل سی کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر (چار ارب 58کروڑ پاکستانی روپے) کی خطیر رقم کی ادائیگی کرنا پڑی۔ مشرف حکومت میں نو قائم شدہ نیب نے برطانوی رجسٹرڈ براڈ شیٹ ایل ایل سی نامی سراغ رساں کمپنی کے ساتھ مبینہ ناجائز طور پر کمائی گئی دولت کے ذریعے خریدے گئے غیرملکی اثاثوں کا پتہ لگانے کے لئے معاہدہ کیا تھا اور 200اہداف کے نام براڈ شیٹ کو فراہم کیے گئے تھے لیکن ایک روپے کی بھی نشاندہی نہ ہو سکی۔ 2003میں معاہدے کی منسوخی پر کمپنی نے واجب الادا 2کروڑ 20لاکھ ڈالر کی وصولی کے لئے لندن ہائی کورٹ میں نیب کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس کے ساتھ 4ہزار 758ڈالر یومیہ کا اس پر سود بھی لگایا گیا تھا۔ عدالت نے 17دسمبر 2020کو فیصلہ سناتے ہوئے لندن ہائی کمیشن کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالرز 30دسمبر تک ادا کرنے کا حکم دیا اور اپیل کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دی۔ تاہم وکیل نے ہائی کمیشن کو بتایا کہ ایسا کرنے سے اس پر مزید بوجھ پڑے گا جس میں براڈ شیٹ کو مزید جرمانے اور سود کی رقم ادا کرنا پڑے گی۔ اس ضمن میں ہائی کمیشن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کو رقم کی ادائیگی ایک قانونی معاملہ ہے اور عدالتی فیصلے کو نہ ماننے کے مزید سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ براڈ شیٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ایسی کمپنی کی حیثیت سے تشکیل دی گئی ہے کہ جو اثاثوں اور رقوم کی بازیابی میں مہارت رکھتی ہے اسی وجہ سے اس طرح کی چیزوں کا سراغ لگانے اور انہیں متعلقہ ریاستوں کو واپس منتقل کرنے میں مصروف ہے۔ 2000میں اِس وقت پاکستانی حکومت نے نیب کے توسط سے بیرون ملک جعلسازی کے ذریعے حاصل کئے گئے فنڈز کے ذریعے بنائے گئے اثاثوں کا سراغ لگانے اور رقوم کی بازیابی کے لئے ہمارے ساتھ معاہدہ کرکے بعد میں اسے منسوخ کردیا۔ 44ہزار ارب روپے کے غیرملکی قرضوں تلے دبی قومی معیشت کے لئے یہ ایک سنگین صورتحال ہےجس کاپبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی نے الگ الگ نوٹس لیا ہے جس کے تحت دونوں فورموں نے قومی احتساب بیورو اور براڈ شیٹ کے درمیان ہونے والے معاہدے اور اس فرم کو اب تک کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاویداقبال کو 18جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی برائے اُمور خارجہ نے اپنے ان کیمرہ اجلاس میں طلب کیا ہے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو بھی سارے معاملے کی تحقیقات کرنے اور آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ ایک بڑا گھمبیر معاملہ ہے جس کے متضاد دعوے اور بیانات سامنے آرہے ہیں اپوزیشن اور حکومتی ارکان حسب سابق ایک دوسرے پر انگلیاں اُٹھارہے ہیں۔ اس معاملے کو کسی صورت ماضی کی طرح شور شرابے کی نذر نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان اپنے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لئے دن رات کوششیں کررہا ہے اور اس میں اسے کامیابی بھی حاصل ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس سے انتہائی نچلی سطح پر آئے زرِ مبادلہ کے غیرملکی ذخائر میں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں لیکن ریکوڈک اور براڈ شیٹ جیسے معاملات ساری محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہیں۔ بظاہر یہ کیس ہماری سابقہ حکومتوں کے غیرمحتاط رویوں کا شاخسانہ ہے لیکن حکومت وقت کا بلا تفریق ان معاملات کی تہہ تک پہنچنا موجودہ اور آنے والے وقت کے تناظر میں ناگزیر ہے۔ امیدِ واثق ہے کہ اس حوالے سے حکومت ماہرین سے ہر پہلو پر قانونی مشورہ کرکے ڈوبی ہوئی خطیر رقوم بازیاب کرالے گی۔

تازہ ترین