• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچائی یہ ہے کہ آج کی دنیا میں اصل لڑائی نہ تو ادیان کی ہے نہ مسالک کی۔ اصلی و حقیقی جنگ شعور اور جہالت کے درمیان برپا ہے۔ جہاں جہاں جتنی جتنی جہالت ہے وہیں وہیں اتنی ہی شرح سے جنونیت، منافرت، دشمنی اور تعصب پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ آپ جہالت ختم کرا دیں، درویش لڑائی جھگڑے ختم کروا دے گا۔ کوئی صاحب ابھی اٹھیں گے اور چلاتے ہوئے فرمائیں گے کہ اے جعلی درویش تم غلط بیانی سے کام لے رہےہو، کوئی جہالت کی لڑائی نہیں ہے، یہ سب مفادات کی لڑائیاں ہیں، مفادات کا ٹکراؤ اگر پڑھے لکھے باشعور ادیبوں، شاعروں اور عالموں میں بھی ہوگا تو وہ بھی جہلا کی طرح ہی باہم دست و گریباں ہو جائیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ پڑھائی لکھائی کی وجہ سے ہی اُن کی لڑائی زیادہ گھناؤنی ہو جائے، وہ باہم ایک دوسرے کو ایسا نقصان پہنچائیں جو جہلا بھی نہیں پہنچا سکتے۔ بلاشبہ مفادات کے ٹکراؤ سے جو نفرتیں ابھرتی ہیں، وہ بعد ازاں معرکہ پانی پت میں ڈھل جاتی ہیں، یہ ایک پہلو اپنے اندر بڑا وزن رکھتا ہے لیکن اِس کا پوسٹ مارٹم ہونا چاہئے۔ دنیا میں بڑے خونیں معرکے تو ہوئے ہی عالموں فاضلوں کے درمیان ہیںجنگِ عظیم اول و دوم لڑنے والے جاہل گنوار تو نہیں تھے۔ درویش نے جتنا بھی اس مسئلے پر غور کیا ہے یہی جواب ملا ہے کہ غلط فہمی بھی جذباتیت کی طرح ایک نوع کی جہالت ہی ہوتی ہے۔ ذرا ٹھہریے یہاں اس امر کا تعین ضروری ہے کہ جارحیت کس کی طرف سے شروع ہوئی؟ آپ کے اندر کتنی ہی علمیت و انسانیت ہے لیکن کوئی جہالت کا پروردہ اگر آپ کی جان، مال یا عزت پر حملہ آور ہوتا ہے تو یونیورسل لا آپ کو سیلف ڈیفنس کا حق دیتا ہے لیکن گھپلا ہمیشہ جارح کے تعین میں کیا جاتا ہے۔ ہم تمثیلاً ملاحظہ کرتے ہیں کہ دو افراد باشعور بھی ہیں اور نیک فطرت بھی، مشترکہ کاروبار یا معاملات میں کوئی ایسی غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے جو نفرت اور دشمنی تک لے گئی ہے تو شعور کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بیچ میں مشترکہ لوگوں کو ڈالتے ہوئے گفتگو یا بات چیت سے نہ صرف غلط فہمیاں دور کر لیں بلکہ اپنے معاملات معیاری سطح پر لے آئیں لیکن اگر ایک کی نیت میں فتور ہے تو معاملہ لازماً خرابی کی طرف جائے گا۔

دنیا نے کئی دہائیوں تک دو عالمی طاقتوں امریکا اور سوویت یونین کو بالمقابل کھڑے دیکھا جو سرد جنگ کے طویل دور میں ایک دوسرے پر مخالفت سے ابل رہی تھیں، مفادات کا سخت ٹکراؤ تھا، دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح تھیں مگر براہِ راست دونوں نے کبھی باہم وہ گرمی نہیں آنے دی جس کے مظاہر ہم مڈل ایسٹ یا ساؤتھ ایشیا میں دیکھ چکے ہیں۔ جدید چائنہ اور امریکا کی بھی کچھ ایسی ہی مثال ہے، اُس کے برعکس پاکستان اور انڈیا میں جتنی بھی سر پھٹول ہوئی ہے، وہ سب جذباتی منہ زوری کا نتیجہ تھی۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اِن جنگوں کو ٹالنا قطعی مشکل نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ ہے جبکہ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان جس قدر جذباتی منہ زوری ہے، مسئلہ کشمیر اگر نہ بھی ہوتا تب بھی منافرت نے اسی مضبوطی سے موجود و ایستادہ ہونا تھا۔ بالفرض آج اگر مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو اگلے روز پانچ نئے مسائل اٹھ کر سامنے آن کھڑے ہوں گے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان میں شعوری بیداری لانا یا منطق و استدلال کی صلاحیت پیدا کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جذباتیت بھڑکانا یا جذبات کو اشتعال میں لانا سہل و آسان ہے لہٰذا سہل پسندی سے مقام بلند کے خواستگار جان جوکھوں میں ڈالے بغیر جذباتیت کا الاؤ جلا کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں۔ جب تک جہالت زندہ باد ہے افراد ہی میں نہیں اقوام میں بھی نفرتوںپر استوار طاقتیں توانا ہوتی رہیں گی۔ ان طاقتوں کی اصل دشمنی بڑھتے ہوئے انسانی شعور کے ساتھ رہے گی۔ مفادات یہ اسیرحریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کو پنپنے نہیں دیں گے، ان پر طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے قدغنیں لگانے کیلئے کوشاں رہیں گے، البتہ اب انٹرنیٹ نے سوشل میڈیا کے ذریعے شعور کو بڑھاوا دینے کا جو نیا امکان پیدا کر دیا ہے، اس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ دھیرے دھیرے شعور بڑھتا اور پھیلتا چلا جائے گا یوں نفرتوں کے سوداگر اِسی تناسب سے کمزور ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہ الگ بحث ہے کہ سوشل میڈیا بھی ہنوز روایتی جبر کے دباؤ میں ہے اور جہالت یہاں بھی پوری طاقت کے ساتھ جلوہ افروز ہے اور شعوری سوالات پر روک لگائے بیٹھی ہے۔

تازہ ترین