• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے پچھلے کالم میں اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ سندھ کے متعدد سیاسی حلقے اور مبصرین یہ توقع کررہے ہیں کہ نواز مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف انتخابات میں حاصل ہونے والے بھاری مینڈیٹ کے باعث اب آگے بڑھ کے ایسے اقدامات کریں گے جن کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کا مستقبل تباناک بنے بلکہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک مضبوط اورحقیقی وفاقی ریاست کے طورپر ابھرے نہ صرف اپنے ملک کے عوام کے لئے ‘ اس خطہ کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے باعث تقویت ہو اس سلسلے میں یہ حلقہ اور مبصرین کی یہ رائے تھی کہ اب پاکستان کو ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے جو سارے صوبوں کی منتخب قیادت کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد حاصل ہونے والے اتفاق رائے کی روشنی میں واضح کیاجائے۔ مجھے اس کالم کا ملک بھر سے عمومی طور اور سندھ بھر سے خاص طور پر خاصا فیڈ بیک ملا ہے اس دوران میری نہ صرف سندھ کے کچھ دنشواروں سے بلکہ سندھ کے قوم پرست حلقوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ایسے کئی نکتے سامنے آئے ہیں جو نئے سوشل کانٹریکٹ کے خدوخال بن سکتے ہیں ۔اس سے پہلے کہ مجوزہ سوشل کانٹریکٹ کے خاص خاص پہلو یہاں پیش کریں مناسب ہوگاکہ یہ بات وضاحت سے پیش کی جائے کہ سندھ کے لوگ پاکستان کے حوالے سے کتنے حساس ہیں۔ واضح رہے کہ برصغیر میں پاکستان کے حق میں سب سے پہلے قرارداد سندھ اسمبلی نے منظورکی تھی علاوہ ازیں کئی تاریخ دان اس بات سے متفق ہیں کہ اگرسندھ بمبئی پریذیڈنسی کی غلامی سے آزاد ہوکر اپنے الگ وجود کے ساتھ برصغیر ہندوسندھ کے نقشے پر نمودار نہ ہوتی توشاید پاکستان بھی نہ بنتا۔ واضح رہے کہ بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی کے لئے سندھ کے عوام کو ایک بڑی تحریک چلانی پڑی لہٰذا سندھ کے لوگ سندھ کو پاکستان کی ماں سمجھتے ہیں اور یہ رائے زکھتے ہیں کہ پاکستان نے سندھ کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سندھ کی وابستگی صرف پاکستان بننے تک نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بھی تھی اور اس کے بعد بھی رہی ہے۔ یاد رہے کہ لیاری (کراچی) میں قائم بہاری کالونی نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ سندھ کے عوام کے عشق اور وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ بزرگوں سے معلوم ہواہے کہ 30ء کی دہائی کے دوران بہار میں ہندومسلم فسادات کے دوران وہاں کے مسلمانوں کو بہت لوٹا گیا تھا اور وہاں کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بے گھر وبے سروسامان ہوگئی تھی اس سلسلے میں حاصل ہونے والی اطلاعات کی روشنی میں سیٹھ عبداللہ ہارون اور جی ایم سید کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے سندھ بھر کے زمینداروں اور وڈیروں سے چندہ اکٹھا کرکے ایک خطیر فنڈ قائم کیااس میں سے امدادی سامان لیکر سندھ سے ایک وفد بہار گیا اور وہاں فسادات کے متاثرمسلمانو ں کو امداد فراہم کی، مگر کہا جاتا ہے کہ بہار کے اکثر متاثر مسلمان خود کو بہار میں غیرمحفوظ تصور کررہے تھے اور انہوں نے سندھ آکر یہاں آباد ہونے کی خواہش ظاہر کی لہٰذا سندھ کا یہ وفد سندھ واپس آنے کے بعد بڑے پیمانے پر چندے جمع کرکے لیاری میں بہار کے متاثرہ مسلمانوں کے لئے ایک کالونی بنانے کے کام میں لگ گیا اور یہ کالونی بننے کے بعد بہار کے متاثر مسلمانوں کو دعوت دی گئی کہ وہ آکر یہاں بس سکتے ہیں اس وقت سے یہ بہار کالونی آباد ہے جو سندھ کے وڈیروں کے چندے سے تعمیر ہوئی تھی۔اس طرح یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر میں مشہور سفید رومال تحریک بھی سندھ کے شہر ٹھٹھہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس طرح یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف ایم آر ڈی کی کال پر جو پاکستان بچاؤ تحریک شروع کی گئی تھی وہ ایک مرحلے پر سندھ تک محدود ہوگئی تھی مگر سندھ کے لوگ پیچھے نہیں ہٹے اس تحریک میں مبینہ طور پر خیرپور ناتھن شاہ جسے ایم آر ڈی تحریک کے حوالے سے ویتنام کہا جاتا ہے کے گردونواح کے کھیتوں میں کپاس کی چنائی کرنے والی ہاری عورتوں پر ہیلی کاپٹر سے گولیاں چلائی گئیں اور سکرنڈ کے قریب نیشنل ہائی وے پر بطور احتجاج قرآن خوانی کرنے والے سیاسی کارکنوں پر ٹینک چڑھائے گئے لہٰذا پاکستان کے ساتھ سندھ کے عوام کی AFFILIATIONکسی بھی شک وشبے سے بالاتر ہے ۔مگر ساتھ ہی سندھ کے عوام سندھ کی سا لمیت کے حوالے سے بھی انتہائی حساس ہیں ۔سندھ کی سا لمیت اور خود مختیاری کی خاطر سندھ کے عوام کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی طور پر بھی COMPROMISEکرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔
یہ ابتدائیہ شاید بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں ایک لمبے عرصے تک صوبائی خود مختیاری کو گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا رہا ہے اور ملک کو ایک وفاق کے طور پر چلانے کے بجائے ایک لمبے عرصے تک وحدانی طرز کی حکومت کے طور پر چلایا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں آدھے سے زیادہ حصہ پاکستان سے الگ ہو گیا۔ بہرحال18ویں آئینی ترمیم کا منظور ہونا پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل سے کم نہیں ۔ مگر سندھ کے لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ سفر 18ویں ترمیم منظور ہونے تک ختم نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت یہاں سے سفر شروع ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلی حکومت کے دوران بیورو کریسی نے اس ترمیم پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا اور کئی روڑے اٹکائے گئے لہٰذا نواز شریف حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف 18ویں ترمیم اور پچھلی حکومت کے دور میں منظورکئے گئے این ایف سی ایوارڈ پر من وعن عمل کیاجائے مگر اب دوقدم آگے بڑھائیں۔ اس پس منظر میں نئے سوشل کانٹریکٹ کی تجاویز سامنے آئی ہے اس سلسلے میں سندھ کے کچھ دانشورو ں اورقوم پرست رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے دوران جو تجاویز سامنے آئیں ہیں ان کے چند نکتے مندرجہ ذیل ہیں‘ (اے)اب اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان ایک MULTI-NATIONALملک ہے پاکستان ایک ملک ضرور ہے مگر چار قوموں یعنی پنجابیوں‘ سندھیوں‘ پختونوں‘ بلوچوں کا مسکن ہے۔ پنجابیوں کی ریاست پنجاب‘ سندھیوں کی ریاست سندھ‘ پختونوں کی ریاست خیبرپختونخوا اوربلوچوں کی ریاست بلوچستان ہے۔ اس طرح پاکستان چار ریاستوں یعنی پنجاب‘ سندھ‘ کے پی اور بلوچستان پر مشتمل ایک ملک ہے لہٰذا آئین میں پاکستان کا نام یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پاکستان ہونا چاہئے۔ (بی ) سارے قدرتی وسائل مع پورٹس متعلقہ صوبوں کے حوالے کر دینے چاہئیں صرف اس طرح ہی پاکستان کا وفاق مضبوط ہو سکے گا ۔ یہ کتنا بڑا مذاق تھا کہ بلوچستان کو خوش کرنے کیلئے پچھلی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے گوارد بندر گاہ بلوچستان حکومت کے حوالے کرنے کااعلان کیا، اس نوٹیفکیشن کی کیا حیثیت ہے؟ یاد رہے کہ آئین میں پورٹس صوبوں کے حوالے نہیں مگر وفاقی فہرست میں شامل ہیں حکومتوں کو اس طرح کا مذاق کر کے صوبوں کی دل بہلانے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ وقت آگیا ہے کہ جو نیا سوشل کانٹریکٹ طے کیاجائے اس کے تحت سارے قدرتی وسائل اور پورٹس متعلقہ صوبوں کے حوالے کئے جائیں۔ جہاں تک اسلام آباد کا کاروبار چلانے کاتعلق ہے تو اسلام آباد ہمارے پیارے ملک کا دارالحکومت ہے اس کو چلانے کے لئے کوئی مناسب فارمولا طے کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر سب صوبے اپنی اپنی آبادی کے تناسب سے اس خرچ کا حصہ برداشت کریں ویسے بھی آبادی کا فارمولا ہمارے کئی مہربانوں کوکافی پسند ہے۔ (سی)وفاقیت اور جمہوریت پاکستان کی اساس ہے، جمہوریت کو سبوتاژ کرنے والوں کے ہاتھ روکنے کے لئے آئین میں آرٹیکل6 شامل کیا گیاہے مگر آرٹیکل 6 اب تک اس سلسلے میں کارآمد ثابت نہیں ہوسکا، اس وقت بھی آرٹیکل 6 پر عمل کرنے کے لئے سپریم کورٹ وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہی ہے اور وفاقی حکومت سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت ایک ایسا خودکار مکینزم وجود میں لایا جائے جسکے تحت جمہوریت اورآئین کو سبوتاژ کرنے والا خود بخود پکڑ میں آجائے۔ (ڈی) 1940ء کی قرارداد کی روشنی میں چاروں صوبوں کو قومی اسمبلی میں ایک جیسی نمائندگی دی جائے۔ (ای ) پاکستان کی افواج کو صحیح طور پر قومی افواج میں تبدیل کیاجائے جس میں سارے صوبوں کی ایک جیسی نمائندگی ہو۔
کچھ اور بھی تجاویز ہیں جو کالم کے طویل ہونے کی وجہ سے فی الحال شامل نہیں کی جارہی ہیں بہرحال یہاں یہ بات ریکارڈ پر لانا بہت ضروری ہے کہ ان تجاویز میں سے ایسی تجاویز بھی ہوں گی جو کچھ حلقوں کو پسند نہیں آئیں گی مگر ان پر مباحثہ اور مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے۔ سوشل کانٹریکٹ ان نکتوں پر مشتمل ہو سکتا ہے جن پر اتفاق رائے ہو گا۔
تازہ ترین