• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹر رحيق احمد عباسی ۔۔۔لندن
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام اور مسلم امہ کا جتنا نقصان اندرونی معاملات سے ہوا اتنا بیرونی سازشوں اور حملوں سے نہیں ہوا،اگرچہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ان میں سر فہرست باہمی انتشار اور عدم اتفاق ہے، علاقائی تقسیم ، نسلی تفاخر اور لسانی تعصب بھی وجود امت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں لیکن اس حوالے سے بڑا چیلنج مذہبی تقسیم اور فرقہ واریت کا ہے۔ آج کے دور میں ہر مسلک اپنے آپ کو حق پر اور باقی سب کو باطل گردانتا ہے، اگرچہ ہر کوئی کسی نہ کسی طور خدمت دین کا ہی دعویدار ہے لیکن وہ اپنی خدمت دین کو باقی سب کی خدمت دین سے اعلی ٰو ارفع سمجھتا ہے ۔ ہر ایک کے نزدیک اس کا مسلک و فقہی مذہب اصل حق و سچ ہے باقی مسالک راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں ، ہر روحانی سلسلہ کے پیرو کاروں کے ہاں ان کے شیخ و مرشد قطب دوراں و غوث زماں ہیں اور باقی سب بس ايسے ہی ہيں ، اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہر مسلک کے اندر بھی تقسیم در تقسیم کا عمل ہو چکا ہے اور ہر مسلک ميں موجود مختلف گروہ بھی ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، حضور نبی اکرمﷺ نے اپنی امت میں اختلاف کو رحمت قرار دیا کیونکہ مثبت اختلاف علمی تحقیق کا راستہ کھولتا ہے ،علمی تحقیق تنوع کو جنم دیتی ہے اور تنوع انسان کی ہر لمحہ بدلتی ذندگی کی ضرورت ہے ،اسی تنوع کی نمو کیلئے مختلف فقہی مذاہب وجود آئے ،انسان کی طبیعت اور مزاج میں موجود تنوع کے پیش نظر ہی مختلف روحانی طرق تشکیل پذیر ہوئے ، اللہ کی طرف سے اتاری گئی آخری کتاب اور نبی اکرمﷺ کی سنت و سیرت کی مختلف دور میں مختلف ائمہ امت نے اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق تعبیر و تشریح کی جن سے یہ مسالک و مشارب وجود میں آئے لیکن ان سب کی مثال ان نہروں اور ندیوں کی مانند ہی تھی جو ایک ہی دریا کا پانی مختلف کھیتوں تک پہنچاتے ہیں ، ایسے فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو اپنے کھیت سے ملنے والی نہر کو دریا پر ترجیح دیتا ہو اسی طرح اپنے مسلک فقہی مذہب یا روحانی طریقہ کو دین پر ترجیح دینا بھی ایک بد بختی ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان کی، بھلائی کیلئے ہی سہی، وضع کردہ شے کو اللہ کی وضع کی ہوئی شے پر ترجیح دینا ، نعوذباللہ من ذلک، ہمارے مسالک انسانوں کے وضع کر دہ ہیں، ہماری جماعتیں انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں، ہمارے مدارس انسانوں کے قائم کئے ہوئے ہیں، ہماری خانقاہیں انسانوں کی آباد کی ہوئی ہیں، ہماری تحریکیں انسانوں کی چلائی ہوئی ہیں، یہ سب کے سب خدمت دین کے راستے اور طریقے تو ہو سکتے ہیں لیکن عین دین نہیں یہ سب دین کے تابع رہنے چاہئے ان کو دین پر ترجیح نہیں دینا چاہئے۔ اب اس بات پر کوئی یہ ہی جواب دے گا کہ ہم اپنے مسل،ک طریقے ،جماعت یا مشرب کو دین پر ترجیح نہیں دیتے تو عرض ہے کہ یہ کہنے کی بات نہیں سوچ و فکر کی بات ہے ۔خوبصورت الفاظ سے اپنی تقریر و تحریر کو مزین کرنا آسان ہے لیکن اپنے عمل و کردار اور مزاج و طبیعت کو اپنے الفاظ کے تابع کرنا بڑا مشکل کام ہے اگر ہم اپنی خدمت دین کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کی خدمت دین سے کیڑے نکالتے ہیں ، ہم اپنے مسلک کو حق پر اور باقی سب کو گمراہ سمجھتے ہیں، ہم اپنے طریقہ کو کامل و اکمل اور باقی سب طریق کو ناقص و کمتر گردانتے ہیں، ہمارے نزدیک ہم جو کررہے ہیں وہ تو عین دین ہے جب کہ باقی سب فروعی اور غیر اہم کام ہیں ،ہم ہی اللہ کے چنیدہ لوگ ہیں اور باقی سب سطحی مسلمان جو ہم میں شامل ہو گیا وہ عرش الہٰی کے سائے میں آ گیا اور جو ہم سے نہ جڑا وہ روندہ درگاہ جو ہماری تعریف کرے وہ قابل تعریف اور جو ہم پر تنقید کرے وہ قابل نفرت جو ہمارا مکمل تابع رہے وہ اللہ و رسول کا تابع اور جو ہم پر سوال اٹھائے وہ مردود اور شیطان کا پیرو کار تو پھر یقین کریں کہ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں ہم اپنے مسلک و مشرب اور گروہ و جماعت کو دین اور امت پر ترجیح دینے کے ظلم کا ارتکاب تو نہیں کر رہے، جب تک ہمارے اہل مذہب میں اس افسوسناک روئیے کا تدارک کرنے کی شعوری کو شش نہیں کی جاتی ہمارے معاشرے میں مذہبی منافرت بڑھتی ہی جائے گی اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اب نئی نسل اہل مذہب کے اس روئیے کو دیکھ کر ان سے ہی نہیں بلکہ مذہب سے ہی بدگمانی کا شکار ہو رہی ہے جس سے معاشرے میں مذہب سے دوری جنم لے رہی ہے لٰہذا وقت کا تقاضا ہے کہ اہل مذہب اپنے اجتماعی رویوں کی اصلاح کی شعوری تحریک کا آغاز کریں ورنہ ہمارا معاشرہ میں دین سے بیزاری اور دوری کا سیلاب نعوذ باللہ سب کچھ ساتھ بہا کر لے جائے گا ۔
تازہ ترین