• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلمہ جمہوری روایات کے حامل کسی ملک کے لئے یہ کوئی خبر نہ تھی شاید اسے اندرونی صحفات کے کسی گوشہٴ گمنام میں بھی جگہ نہ ملتی لیکن یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ تحریری آئین رکھنے کے باوجود اس کی سیاسی تاریخ، اپنی روایات اور اپنی حکایات رکھتی ہے سو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ متوقع وزیراعظم نواز شریف سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ملاقات ٹی وی چینلز کی ایک بڑی خبر بنی، ٹاک شوز کا اہم موضوع قرار پائی اور اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنی۔
ہمارے ہاں کے مخصوص احوال و کوائف میں یہ واقعی اہم خبر ہے۔ جنرل کیانی اپنے روایتی پروٹوکول کے بغیر ذاتی گاڑی پر ماڈل ٹاؤن میں میاں شہباز شریف کی اقامت گاہ پہنچے، تقریباً ساڑھے تین گھنٹے وہاں رہے دوپہر کا کھانا کھایا۔ اس دوران نواز شریف سے ان کی مفصل ملاقات ہوئی۔ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ کن موضوعات پر بات ہوئی لیکن قیاس کیا جاسکتا ہے کہ قومی سلامتی کے امور زیر بحث آئے ہوں گے۔ نام نہاد وار آن ٹیرر اور اس کے منفی اثرات پر بات ہوئی ہوگی، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء، ڈرون حملوں اور پاکستانی طالبان کے معاملات پر بھی گفتگو ہوئی ہوگی۔ یقیناً جنرل کیانی نے نواز شریف کو بریف کیا ہوگا کہ امریکہ سے تعاون کی حدود و قیود کیا ہیں اور پاکستان کن بندھنوں میں جکڑا ہے۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ فوج کے سربراہ نے نواز شریف کو کچھ دیگر معاملات کے بارے میں بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاست میں بالعموم فوجی بالادستی رہی ہے۔ چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں سے کم و بیش تینتیس برس چار فوجی آمروں کی نذر ہوگئے۔ فوج کی اس خوئے حکمرانی نے ملک کو کئی ایسے مسائل سے دو چار کر دیا جو اب ناسور بن چکے ہیں۔ آتی جاتی جمہوری حکومتیں ان مسائل کی چارہ گری کرنے میں ناکام رہیں۔ سلگتے ہوئے کراچی، دہکتے ہوئے بلوچستان اور پھنکارتی ہوئی دہشت گردی کے پیچھے فوجی حکمرانوں ہی کا دست بے ہنر کار فرما ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ پرویز مشرف نے کس طرح نواب اکبر بگٹی کو نشانہ بنایا اور کس طرح کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کو ”عوامی طاقت کا مظاہرہ“ قرار دے کر قانون شکنی کی حوصلہ افزائی کی۔ کراچی کو ایک خاص جبر کے شکنجے میں دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران بھی تین جماعتیں مشترکہ دستر خوان کے مزے لیتی اور اپنے اپنے منہ زور جتھوں کے ذریعے بھتّے بٹورتی، قبضے کرتی اورخون بہاتی رہیں۔
یہ بھی ہوا کہ جمہوری حکومتیں قائم ہو جانے کے باوجود بعض معاملات میں فوج کا عمل دخل بہت زیادہ رہا۔ وہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں بھی بڑی حساس رہی۔ اس کے دل و دماغ میں یہ بات ہمیشہ راسخ رہی کہ حب الوطنی میں کوئی اس کا ثانی نہیں اور قومی مفادات کی نگہبانی صرف وہی کرسکتی ہے۔ اس پہلو سے اس نے عوامی نمائندوں اور سیاستدانوں کو ہمیشہ کم تر سمجھا اور شک کی نظر سے دیکھا۔ قومی تاریخ کے کئی واقعات نے فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان تفریق کی لکیر سی کھینچ دی۔ ایک مارشل لا کے دوران بھٹو جیسا مقبول سیاسی رہنما پھانسی چڑھ گیا۔ ایک اور فوجی حکمران کے عہد میں وزیر اعظم کو انتہائی ناروا سلوک کا نشانہ بننا پڑا اور بالآخر اسے ملک بدر کردیا۔ مشرف مارشل لا کے دوران درجنوں سیاستدانوں کو سیف ہاؤسز میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ لاکھ بھلانا چاہیں، بھلا نہیں پاتے۔ مشرف نے معروف سیاسی جماعتوں میں نقب لگا کر ایک بے ننگ و نام سا قبیلہ تراشا اور نمو پاتی جمہوریت کو ایک بار پھر کوسوں پیچھے دھکیل دیا۔ اس کی بوئی ہوئی فصل کاٹنے میں جانے کتنے زمانے لگیں گے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شعوری کوشش کی کہ جمہوری نظام میں خلل نہ پڑے اور فوج سیاست میں دخیل نہ ہو۔ جس طرح جمہوریت کی بقاء کی خاطر نواز شریف کو فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سننے پڑے، اسی طرح جنرل کیانی پہ بھی بہت تیر برسے لیکن انہوں نے صراط مستقیم سے انحراف نہ کیا۔ ایک انتہائی نااہل و بدعنوان حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیئے۔ جنرل کیانی نے 2008ء کے انتخابات میں بھی مثبت کردار ادا کرتے ہوئے مشرف کے منصوبے کو بروئے کار نہ آنے دیا تھا۔ حالیہ انتخابات کے انعقاد میں بھی ان کی سوچ تعمیری رہی ہے۔ جب یہ بات عام ہوئی کہ فوج کے زیر اثر ایک ایجنسی، ایک چھیل چھبیلی پارٹی کے عارض و رخسار میں رنگ بھر رہی ہے تو انہوں نے اس کا نوٹس لیا۔ انہوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ فوج کا اعتبار و وقار قائم رکھا جائے اور اس ساکھ کو بحال کیا جائے جو مشرف کی بد مستیوں نے بری طرح مجروح کردی تھی۔ اگرچہ اس کے باوجود بعض پُراسرار قوتیں سرگرم رہیں کہ مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت نہ بن پائے۔ برادرم حامد میر نے اس کی خاصی تفصیل بیان کردی ہے۔ صدر زرداری بھی اپنے بے کراں توشہ خانے کے ذریعے سرگرم رہے۔
جمہوریت سے وابستگی کے حوالے سے جنرل کیانی کی سوچ آشکار ہو چکی ہے۔ ادھر نواز شریف آئین کی بالادستی، پارلیمینٹ کی حکمرانی اور جمہور کی فرمانروائی کے حوالے سے ہمیشہ حساس رہے ہیں۔ وہ کھلے بندوں کہتے ہیں کہ نظام مملکت آئین کے مطابق چلایا جانا چاہئے۔ فوج کو سیاسی معاملات سے دور اپنے فرائض منصبی تک محدود رہنا چاہئے۔ وہ ایجنسیوں کے بے مہار پن کے بھی خلاف ہیں جو من مانیاں کرتی اور ملک کو مشکلات سے دو چار کردیتی ہیں۔ وہ ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک مخصوص وژن رکھتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی ترجیح کو پیش نظر رکھنے کے باوجود وہ چاہتے ہیں کہ بھارت سے معمول کے تعلقات قائم ہوں۔ وہ قومی معیشت کی تعمیر کو مقصد اولیٰ خیال کرتے ہیں، ان کی اس سوچ سے فوج زیادہ آسودہ نہیں رہی۔
اس وقت دو تین معاملات اور بھی ہیں۔ پرویز مشرف اپنے فارم ہاؤس کے پنجرے میں بند ہے۔ سپریم کورٹ بار بار حکومت سے پوچھ رہی ہے کہ کیا وہ آمر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلائے گی؟ نگراں مال غنیمت سمیٹنے میں لگے ہیں سو کہہ دیا کہ یہ ہمارا کام نہیں۔ نواز شریف واضح موقف رکھتے ہیں سو ان کے لئے گو مگو کی پالیسی اختیار کرنا مشکل ہوگا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت میں عہد کیا گیا تھا کہ کارگل کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے گا کہ یہ مہم جوئی کن طفلانِ خود معاملہ نے کی اور اس کے کیا اثرات و نتائج مرتب ہوئے۔ نواز شریف ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پہ لانے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں فوج کی حساسیت ہو سکتی ہے لیکن مجھے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے یہ خوش گمانی ہے کہ وہ ان سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فوج کو اب یہ جان لینا چاہئے کہ بیدار رائے عامہ، توانا میڈیا، فعال عدلیہ اور نئے عالمی موسموں کی موجودگی میں نہ تو فوجی مہم جوئی ممکن ہے اور نہ اس بات کا کوئی امکان کہ جمہوری حکومت کو اپنے انگوٹھے تلے رکھا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ فوج اب متروک ہو جانے والے تصورات سے نجات پا کر نئے جمہوری تقاضوں سے مطابقت پیدا کرے اور اپنی انا کو آئین و ریاست کی انا پر مقدم نہ رکھے۔ ایسا ہوگیا تو پاکستان حقیقی استحکام سے ہمکنار ہوگا اور فوج کی عزت و حرمت کئی گنا بڑھ جائے گی۔
جنرل کیانی کی متوقع وزیر اعظم سے ملاقات جمہوری عمل کے لئے نیک شگون ہے۔ جنرل نے کامیابی اور ہنرمندی کے ساتھ یہ پیغام دیا ہے کہ نواز شریف کے حوالے سے فوج کے کچھ تحفظات ہیں۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کو بھی اس ملاقات سے معاملات کی بہتر تفہیم کا موقع ملا ہوگا۔ پاکستان پہاڑ جیسے جن مسائل سے دو چار ہے ان کا تقاضا ہے کہ فوج اور سول انتظامیہ میں ہم آہنگی اور یکسوئی کی مثالی فضا قائم ہو تاکہ حکومت بے نام خدشوں سے آزاد ہو کر اپنی تمام تر صلاحیتیں بحرانوں کے حل پہ مرکوز کرسکے۔
تازہ ترین