• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم سے اپنے دوسرے خطاب میں وزیراعظم بہت زخم خوردہ اور دل برداشتہ نظر آئے۔ خاص طور پر جنرل مشرف کے ہاتھوں جو اُن پر بیتی یا پھر عمران خان کی مغلظاتی یلغار اور اب جو اُن کے ساتھ ہو رہا ہے، لیکن وہ پُرعزم اور جنگ پر آمادہ نظر آئے۔ وزیراعظم اگر پہلی ہی تقریر میں چیف جسٹس سے تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کی استدعا کر دیتے تو شاید اُنھیں اتنی خفت نہ اُٹھانا پڑتی۔ پانامہ پیپرز کے بیرونی کھاتوں کے انکشافات نے ایسی آفت مچائی کہ پھر سے بی جمہوریت کو جان کے لالے پڑ گئے۔ دھرنے کی ناکامی کے بعد تماش بینوں کا جو دھندا ماند پڑ گیا تھا، اب پھر سے اُن کی دُکان چل نکلی۔ الیکٹرانک میڈیا کہاں نچلا بیٹھنے والا ہے کہ اب جمہوریت کی بگڑتی ساکھ پر بغلیں نہ بجاتا۔ یہ بھولتے ہوئے کہ اظہارِ رائے کی یہ بیباکی اور گستاخی جمہوریت ہی کی مرہونِ منت ہے جس کی قبر کھودنے پر وہ تلا بیٹھا ہے۔ ہمارے فاتح اور مقبولِ عام سپہ سالار کا ہمہ طرفہ احتساب کا بیان آیا بھی تو اُس وقت جب ہمارے منتخب مقتدرِ اعلیٰ اپنے اخلاقی جواز کے لئے ہاتھ پیر مار رہے تھے اور اُنھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ابھی میاں نواز شریف اپنا دل سنبھلوا کر گھر واپس ہی لوٹے تھے کہ فوجی احتساب کی لیکس سامنے آ گئیں، یہ جتلانے کو کہ مقدس گائے بھی اب احتساب سے مستثنیٰ نہیں رہی۔ بس پھر کیا تھا، ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی۔ علاقۂ ممنوعہ سے ایسا مژدہ کب سنا گیا تھا؟ یار لوگوں کی جیسے باچھیں کھل گئیں، ہر طرف واہ واہ کے ڈونگروں میں احتساب کا تماشہ لگ گیا۔ کیا واقعی یہ گناہگار آنکھیں سبھی کا احتساب ہوتا دیکھ پائیں گی یا پھر یہ وہی آزمودہ نسخہ ہے جو سیاستدانوں کو اُن کی اوقات دکھانے کے لئے پھر سے آزمایا جا رہا ہے؟
بازیچۂ اطفال ہے دُنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
فاٹا میں دہشت گردی کے آخری بڑے قلعے شوال کو فتح کرنے کے بعد عسکری سلامتی کے محافظ کو فکر لاحق ہوئی کہ دائمی امن اور قومی سلامتی کو کہیں کرپشن کا عفریت ہی نہ نگل جائے۔ یقیناًکرپشن مملکتِ خداداد میں ہر سُو ڈیرے جمائے ہے اور جب فوجی قیادت یہ دیکھتی ہے کہ دو ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے یا پھر ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے تو پھر اُنھیں فکر تو ہونی ہی ہے کہ عدم سلامتی کے علاقائی ماحول میں حربی سلامتی کی بڑھتی ہوئی ضرورتیں اور کمیاب ہوتے ہوئے مالیاتی ذرائع کے باعث ترقی و سلامتی کا مستقبل کیا ہوگا۔ یقیناًبگڑے ہوئے حالات کو سنوارنا بہت ضروری ہے اور اس میں التوا مجموعی حالات کو مزید بگاڑتا چلا جائے گا۔ اس لئے ہمہ طرفہ اور بلااستثنیٰ احتساب سبھی طاقتور لوگوں اور اداروں کا ضروری ہی نہیں لازم بھی ہے۔ تاریخ کا یہ سبق نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمیشہ صرف سیاستدانوں کی مٹی پلید کرنے سے اچھی قانون کی حکمرانی کا مقصد تو حاصل نہ ہو سکا بلکہ اُلٹا فوجی آمریتوں کے ہاتھوں مملکتِ خداداد ہر اعتبار سے اور خستہ حال ہوئی۔ یہ کہنا درست نہیں کہ کرپشن سے دہشت گردی جنم لیتی ہے یا پھر کرپشن کے باعث دائمی امن قائم نہیں رہ سکتا۔ دُنیا کے بیس کرپٹ ترین ممالک وہ ہیں جہاں یا تو ناکام ریاستیں ہیں یا پھر آمریتیں۔ اور دونوں کی قدرِ مشترک قانون کی عدم حکمرانی ہے یا پھر جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا چلن! اور دُنیا کی بیس کرپشن سے پاک ریاستیں وہ ہیں جہاں شفافیت، قانون کی حکمرانی، مؤثر نگہبانی، انسانی حقوق کی پاسداری، غیرسیاسی سول اور ملٹری نوکرشاہی، جمہوریت اور عوام کی حکمرانی ہے۔ جہاں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی نہیں وہاں شفافیت ہے، نہ احتساب، گورننس ہے نہ امن، سلامتی ہے نہ خوشحالی۔
دیر سے سہی لیکن وزیراعظم نے چیف جسٹس کو کمیشن کے قیام کے لئے خط لکھ کر حزبِ اختلاف کے بڑے مطالبے کو منظور کر لیا ہے۔ اب چیف جسٹس جانیں اور اُن کا کمیشن۔ لیکن اپوزیشن جان چھوڑنے والی کہاں؟ اب جو ریفرنس بھیجا گیا ہے اُس کی شرائط میں کیڑے نکالے جا رہے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اس لایعنی بحث کو ختم کرنے کے لئے وزیراعظم تمام پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بلائیں اور پارلیمنٹ کی نمائندہ کمیٹی ٹرمز آف ریفرنس طے کر دے ورنہ یہ غل غپاڑہ چلتا رہے گا۔ عمران خان جو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں، وہ نسخہ خود اُنھی نے تجویز کیا ہے۔ پانامہ لیکس کا معاملہ بہت سادہ بھی ہے اور بہت دشوار بھی۔ سادہ اس طرح کہ کمیشن ان دو سو کھاتہ داروں سے اُن کی سمندر پار کمپنیوں اور جائیدادوں کا حساب مانگے۔ جس کے کھاتے صاف پائے جائیں وہ باعزت بری اور جس کے پاس ٹھوس شواہد نہیں وہ جیل جائے اور حساب دے۔ اور معاملہ دشوار اس لئے ہے کہ خود برطانیہ ان کمپنیوں کے معاملات کھنگالنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ بلاول بھٹو نے بھی عمران خان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ بالغ جمہوریتوں میں ایسی روایت ہے۔ کاش ہماری جمہوریت میں بھی ایسا ہو سکتا۔ لیکن جہاں جمہوریت ہر روز پٹری پر اُترنے کے خطرے سے دوچار ہو، وہاں ایسی جمہوری عیاشی کہاں ممکن۔ البتہ اپنے خلاف برسرِعمل قوتوں کے مقابلے میں اخلاقی برتری حاصل کرنے کے لئے وزیراعظم ایسا کر بھی سکتے تھے، لیکن اُنھیں معلوم ہے کہ وزیراعظم جونیجو نے ضیاء الحق اور ’’مردِ حق‘‘ کی انگیخت پر خود نواز شریف نے اپنی پارٹی کے صدر کے ساتھ کیا کیا تھا۔
پانامہ لیکس کی تحقیقات ہوں، مؤثر ہوں اور کالے دھن کا احتساب بھی۔ معاملہ احتساب کے نام پر فقط اشک شوئی کا یا پھر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کا نہیں جیسا کہ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یا پھر یہ چند فوجی افسروں کی انتظامی برطرفی کر کے سُرخرو ہونے کا نہیں۔ اداروں کی اپنی اپنی خود احتسابی تک رسائی نہ ہونے کے باوجود ہم اس سے خوب واقف ہیں۔ وسائل اور ذرائع کی لوٹ مار اور قبضہ گیری ہر طرف اپنے خوفناک جبڑے کھولے صبح شام دکھائی پڑتی ہے اور اتنی صاف کہ خود احتسابی کی دھول اب آنکھوں کو اندھا کرنے سے رہی۔ جنرل راحیل شریف نے ہمہ طرف احتساب کی ترغیب دے کر اور اس ضمن میں بامعنی اقدامات کی حمایت کر کے سب کے دل موہ لئے ہیں۔ کون ہے جو اس سے اختلاف کرے۔ کرپشن اور اس کے احتساب کو اب سیاسی ضرورتوں اور موضوعی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اور یہ سمجھنا چاہئے کہ ماضی کے سایوں کا تعاقب کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کے موجود ہمہ طرفہ نظام کو سمجھا جائے اور سدھارنے کا ہمہ نو انتظام کیا جائے۔ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے جتنا کہ یہ سطح پر نظر آتا ہے۔ ہماری سرمایہ داری دو نمبر ہے اور کالے دھن، ٹیکس چوری، کمیشن خوری اور بھتے یا کرایہ کی وصولی پر دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے اور متوازی معیشت کے حجم کے بارے میں فقط قیاس ہے کہ یہ دستاویزی معیشت سے دُگنی ہے یا چوگنی۔ ہماری زمیندار اشرافیہ اپنی بے پناہ آمدنی پر ایک پیسہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔
ہماری سول و ملٹری بیوروکریسی کی دس کی دس انگلیاں گھی میں ہیں۔ اور کنٹونمنٹس میں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں سویلین کا داخلہ ممنوع اور سوال کرنے کا حق مفقود۔ بس ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز اور اُنکی ہاؤسنگ اسکیمیں آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ عوام بیچارے جائیں تو کہاں اور اُنھی پر ٹیکسوں کا بوجھ اُن کی خستہ آمدنی پر اُمرا سے دُگنا بھی۔
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
ہمہ طرفہ اور ہمہ نو احتساب کے لئے قانونی، اداراتی، عدالتی، مالی اور انتظامی اصلاحات ضروری ہیں۔ دُنیا بھر میں یہ کیا جا چکا ہے۔ سکینڈے نیوین ممالک سے سنگاپور تک اداراتی اصلاحات کا بے بہا خزانہ ہے جس سے سرعت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے پھر قانون کی بلااستثنیٰ حکمرانی چاہئے۔ کیا ہماری جماعتیں، امرا، سول اور ملٹری بیوروکریسی اس کے لئے تیار ہوں گی؟ قانون کی حکمرانی کو تلپٹ ہوتے تو ہم بار بار دیکھ چکے ہیں، ابھی جنرل مشرف کے کیس میں ہم قانون کی حکمرانی کی بیخ کنی دیکھ رہے ہیں اور اس سے پہلے بھی دہائیوں کے فوجی راجوں میں ہم یہ سب دیکھتے آئے ہیں۔ کاش! سیاستدانوں کی طرح غاصب جرنیلوں کے خلاف مقدمات چلتے ہم بھی دیکھ پاتے۔ آج وقت ہے کہ جنرل راحیل شریف کی سب کے احتساب کی بات کو ٹھوس صورت دی جائے اور کوئی نہ ہو کہ بچ پائے۔
خوش قسمتی سے اگر ہم ایسا کر پائے تو بہت اچھی حکمرانی کی جانب بڑھا جا سکے گا۔ اور یہ سوال بھی زیرِ بحث لانا ہوگا کہ ہمارے ممکنہ ذرائع کیا ہیں، بڑھتی ضرورتوں کے تقاضوں کی اولیتیں کیا ہوں اور کس کا کیا حصہ ہو۔ حربی سلامتی کی ضرورت اپنی جگہ، کبھی انسانی سلامتی و خوشحالی بھی ہماری اولیتوں میں بڑا مقام حاصل کر پائے گی۔ آخر قومی تقاضے کے لئے ہم زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں اور پھر یہ کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں۔ انسانی سلامتی ہو یا حربی سلامتی اور یہ کہ ملک میں اور خطے میں دائمی امن کے قیام سے ہم بہت سے بوجھوں سے فارغ ہو کر اپنے ذرائع کو ایک نہ ختم ہونے والی اسلحہ کی دوڑ کی بجائے اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی پہ خرچ کر سکیں۔ احتساب کے تماشے سے کیا حاصل۔ احتساب ہو تو سب کا اور انصاف ہو تو سب کے ساتھ۔ اس معاملے میں وزیراعظم اور حزبِ اختلاف کیوں پیچھے رہیں، تاآنکہ زندگی پکار کر کہے ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘‘۔
تازہ ترین