• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انعمتیٰ علی صدیقی

اس بھاگتی دوڑتی، مصروف زندگی میں اگر کوئی ہمارے وقت کا سب سے زیادہ حق دار ہے، تو وہ ہماری اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہم پر ترجیحاً فرض کی ہے، جس سے متعلق بازپرس بھی ہوگی۔ذیل میں والدین، خصوصاً ماؤں کے لیے چند اہم امور درج کیے جارہے ہیں، جن پر عمل بچّوں کی تعلیم و تربیت میں مُمدّ و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

کئی گھرانوں میں دوسرے بچّے کی پیدایش کے بعد پہلے بچّےکو بڑا سمجھ کر کم توجّہ دی جاتی ہے، جو قطعاً درست نہیں۔ مانا کہ نومولود کی نسبت بڑا بچّہ سمجھ دار ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُسے نظرانداز ہی کردیا جائے۔ اگر آپ کا بڑا بچّہ دو، تین سال کا یا اس سے بڑا ہے، تو اس کی نفسیات، احساسات اور جذبات سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی اور بے ضرر خواہشات کی تکمیل اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کریں۔ 

اس کی باتیں چاہے بے معنی، بے سروپا ہوں، مگر توجّہ اور دِل چسپی سے سُنیں، تاکہ اُسےباہر کی دُنیا میں اپنی دُنیا ڈھونڈنی نہ پڑے۔ آج کل تدریسی ادارے بند ہونے کی وجہ سے تقریباً پورا دِن بچّے گھر پرہوتے ہیں، لہٰذا ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے اُنھیں پیار و محبّت سے مثبت اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ ان کی تعلیم اور دیگر سرگرمیوں کا شیڈول ترتیب دیں،تاکہ ان میں نظم و ضبط پیدا ہوسکے۔

تربیت کے حوالے سےمسائل تب پیش آتے ہیں، جب مائیں پورا دِن کاموں میں مصروف رہ کر بچّوں کو وقت نہیں دے پاتیں۔ مانا کہ ماؤں کے لیے ’’ٹائم مینجمنٹ‘‘مشکل ہدف ہے، لیکن ناممکن نہیں۔اس کے لیے ماؤں کو اپنے وقت اور کاموں کو ازسرِ نو ترتیب دینے کے ساتھ بے مقصد سرگرمیاں بھی ترک کرنا ہوں گی۔ جیسے بار بار واٹس ایپ اور فیس بُک پر اسٹیٹس چیک کرنا، فون پر باتیں اور غیر ضروری شاپنگز میں وقت ضایع کرنا وغیرہ۔ 

عموماً یہ سب سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے ماؤں کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ اگر وہ مسلسل کام کاج کے بعد ایسا نہ کریں، تو تھکن اور یک سانیت کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار ہو جائیں گی۔ یعنی وہ اپنامائنڈ فریش کرنے کے لیے ایسا کرتی ہیں۔ تو یاد رکھیے، بچّے خود اینٹی ڈیپریشن ہوتے ہیں، ان کی موجودگی میں کہیں اور سُکون تلاش کرنے کی ضرورت ہی کہاں رہ جاتی ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچّےپڑھتے ہوئے خاص طور پر ماؤں کو تنگ کرتے ہیں، اس لیے ماؤں کواپنا رویّہ تھوڑا سخت کرنا پڑتا ہے،مگر ہٹلر بن جانا بھی درست نہیں۔ 

یاد رکھیے، ہر بچّے کی ذہنی استعداد مختلف ہوتی ہے۔جیسے حُسن اور نصیب سب کا جُدا ہوتا ہے، ایسے ہی ذہنی صلاحیتیں بھی جداگانہ ہوتی ہیں۔ کسی بچّے کی یادداشت اس قدراچھی ہوتی ہے کہ ایک ہی بار سبق پڑھ کر یاد ہو جاتا ہے،توکوئی متعدّد بار پڑھ کر یاد کرپاتا ہے۔ لہٰذا دوسرے بچّوں سے موازنہ کرنا چھوڑ دیں، بلکہ اس کے اپنے بہن بھائیوں سے بھی اس کامقابلہ نہ کیا جائے کہ یہ عمل رقابت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔بچّّے کو اُس کی کسی کم زوری کاطعنہ دیں، نہ کسی کے سامنے اس کی بُرائی کریں۔ 

بُرے القابات سے بھی نہ پکاریں ۔ اس طرح بچّہ خود کو کند ذہن اور بُرا سمجھ لیتا ہے اور احساسِ کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔ مار پیٹ سے تو خاص طور پر سخت اجتناب برتیں۔ بچّے تو ویسے ہی نازک ہوتےہیں اور اس سے کہیں زیادہ ان کےاحساسات و جذبات نازک ہوتے ہیں۔ وہ والدین کے رویّے دیکھتے ہیں،مگر ان کے دِلوں میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اس بات کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ والدین کی روک ٹوک اور تنبیہہ کا مقصد کیا ہے۔ وہ تو صرف نرم مزاجی ہی کو پسند کرتے ہیں اور سخت مزاجی سے دُور بھاگتے ہیں۔ یاد رکھیں، سختی اور جبر سے جانوروں کو تو سدھایا جا سکتا ہے، مگر معصوم بچّوں کو نہیں۔

اگر مائوں کو گھر کےکام کاج ہی سے فرصت نہیں ملتی،تو اس کا بھی حل موجود ہے۔ بچّوں کو ان کی عُمر اور صلاحیتوں کے لحاظ سے اپنے ساتھ مصروف رکھیں۔ جیسے بچّوں کے مَن پسند اسنیکس ان کی مدد سے تیار کروائیں، پھربچّوں کو کپڑے دھلوانا،کھانا بنوانا اور کیک بنانا بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ نیز، گھر کی صفائی ستھرائی میں خاص طور پر ان کی مدد لیں کہ اس طرح صفائی پسندی ان کی طبیعت کا حصّہ بن جائے گی۔ اِسی طرح دسترخوان یا میز پرکھانے کے برتن رکھنے کی عادت ڈالیں ۔

کپڑے دھوئیں تو انہیں تار پر پھیلانے کے لیے کہہ دیں۔ اگر وہ خود کچھ دھونا چاہیں، تو دھونے دیں، روکیں نہیں، تاکہ وہ مختلف تجربات سے محروم نہ رہیں اور اُن میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ ہر وقت ان کے سَروں پر سوار رہیں، نہ غیر ضروری روک ٹوک کریں۔عموماًمائیں گھر پھیلنے یا گندا ہونے کے ڈر سے بچّوں کو کھیلنے تک نہیں دیتیں، تو یہ بھی غلط ہے۔زیادہ تربچّوں کو پانی اور مٹّی سے کھیلنا بہت اچھا لگتا ہے، انہیں منع کرنے کی بجائے گھر کا کوئی حصّہ اس طرح کے کھیلوں کے لیے مخصوص کردیں۔عموماًبچّے بلڈنگ بلاکس وغیرہ سےکھیلتے ہوئے اُٹھ کر کہیں جاتے ہیں ، تومائیں فوراً ان کی بنائی ہوئی بلڈنگز، پُل ٹاور مسمار کر کے بیگ میں رکھ دیتی ہیں اور وہ واپس آکر اپنی تخلیقات ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں۔ 

ہمارے لیے بچّوں کی تعمیرات تہہ و بالا کر دینا معمولی سی بات ہے، مگر اُن کے لیے نہیں۔جس طرح کوئی ہمارا کام بگاڑدے تو ہمیں غصّہ آتاہے، بالکل ایسے ہی بچّوں کو بھی آتا ہے، جس کا اظہاروہ نافرمانی اور بے جا ضد کی صُورت کرتے ہیں۔اور ہاں، بچوں کے سامنے والدین کبھی ایک دوسرے کی بُرائی نہ کریں۔ چاہے آپس میں کتنی ہی ناچاقی کیوں نہ ہو، ہنستے مُسکراتے رہیں کہ آپ کی پہلی ترجیح ہمیشہ آپ کے بچّےہونے چاہئیں۔

تازہ ترین