نئی صدی کے بیس سال گزر گئے، یعنی اکیس ویں صدی کا اکیس واں سال شروع ہو چُکا ہے۔جب نئی صدی کا آغاز ہوا، تو جہاں دنیا میں اس کی آمد پر خوشیاں منائی گئیں، وہیں اس اُمید اور توقّع کا بھی اظہار کیا گیا کہ نئی صدی لوگوں کے لیے خوش حالی اور آزادی لائے گی۔ کرۂ ارض پر بسنے والوں کے درمیان فاصلے سمٹیں گے اور قربتوں میں اضافہ ہوگا، جس سے امن کو فروغ ملے گا۔صدی کے پہلے بیس برس بہت حد تک ان اُمیدوں اور توقّعات کے مطابق رہے۔
دنیا نے نئے میلینیم میں وہ تیز رفتار ترقّی دیکھی، جس کی مثال گزشتہ بیس صدیوں میں تو کیا، پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس ترقّی کی بنیادی وجہ وہ امن تھا، جس کی عوام توقّع کر رہے تھے۔اس دوران دنیا بھر کی بڑی طاقتیں کم ازکم اِس ایک بات پر تو متفّق رہیں کہ’’ جنگ سے گریز لازم ہے، وگرنہ حاصل کردہ ترقّی ملیامیٹ ہو جائے گی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے تنازعات کو جنگ میں تبدیل نہ ہونے دیا اور نہ ہی باہمی اختلافات معیشت پر اثر انداز ہوئے۔
سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، افغانستان میں جنگ کی بجائے امن کے پرچم لہرانے لگے، ویت نام کا محاذ ٹھنڈا ہوگیا، عراق میں جنگ رُکی، یوکرائن تنازع کسی بڑی جنگ کے بغیر تھم گیا اور شام میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے باوجود خطّے میں کوئی بڑی جنگ نہ چِھڑی۔ ایران اور مغرب کے درمیان کش مکش صرف معاشی پابندیوں تک محدود رہی۔ کوریا کے ایٹمی معاملات بھی جنگ کی دھمکیوں سے مذاکرات کی طرف آگئے۔
دراصل ،دنیا نے امن پسندی کا یہ سبق گزشتہ صدی کی عالمی جنگوں سے سیکھا۔ تاہم، افسوس ناک امر یہ رہا کہ مسلم دنیا میں بار بار جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے اور اسی لیے اُن کا ترقّی کا سفر بھی نامکمل رہا، بلکہ کئی ایک ممالک میں تو تنازعات نے ترقّی کے سفر کو مزید پس ماندگی کی طرف دھکیل دیا۔ نئی صدی میں ٹیکنالوجی کی نئی نئی جہتیں ترقّی کی بنیاد بنیں، لیکن یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ نئی صدی کو اپنے بیس ویں سال ایک اور قسم کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک سو سال پہلے دنیا میں پہلی عالمی جنگ نے تباہی اور خوف پھیلایا، تو نئی صدی میں عالمی وبا، کورونا وائرس نے تباہی مچائی اور نئے برس میں بھی دنیا اس سے جنگ میں مصروف ہے۔ گزشتہ صدی کی جنگوں میں مُمالک اور قومیں ایک دوسرے کے مقابل تھے، لیکن رواں صدی میں قومیں ایک دوسرے کو اپنے مشترکہ دشمن کووِڈ ۔19 سے بچانے کے لیے متحد ہیں۔
2021 ء میں ایک بار پھر عالمی قیادت کو معاشی اور دیگر چیلنجز کی بحالی کا سامنا ہے۔ معیشت اب سیاست پر سبقت لے گئی ہے۔ ظاہر ہے، اسی تناظر میں مُلکوں اور قوموں کو اپنے اہداف بھی بدلنے ہوں گے۔جو قوم یہ بات جتنی جلد سمجھ لے، اُس کے لیے اُتنا ہی بہتر ہوگا، خاص طور پر ہماری جیسی غریب اقوام کے لیے تو فیصلہ کُن گھڑی ہے اور اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس موقعے پر کیے گئے غلط فیصلوں کے نتائج آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑیں گے۔ امریکا کی، جو دنیا کی واحد سُپر پاور ہے، قیادت بدل چُکی ہے۔ صدر ٹرمپ کا دَور گزر گیا اور اب جوبائیڈن اُن کی جگہ لے چُکے ہیں۔ٹرمپ ایک قوم پرست لیڈر تھے۔’’ امریکا فرسٹ‘‘ کے نعرے پر سامنے آئے اور پھر اسی بنیاد پر اپنی سیاسی اور خارجہ حکمتِ عملی طے کی۔
وہ اندورنِ مُلک بہت سی تبدیلیاں لائے۔عالمی امن میں بھی اہم کردار ادا کیا، لیکن کورونا کے سامنے بے بس ہوگئے۔لہٰذا، امریکی قوم نے فیصلہ کیا کہ بحالی کے دَور میں اُن جیسا غیر روایتی اور سیماب صفت رہنما مناسب نہیں۔قوم پرستی کی باتیں بعد میں بھی ہوتی رہیں گی، لیکن پہلے اقتصادی بحالی ضروری ہے۔قوم نے جوبائیڈن کو نئے صدر کے طور پر اِسی لیے منتخب کیا کہ اُنھیں امید ہے کہ وہ بہتر حکمتِ عملی کے ذریعے بحالی کی منزل تیزی سے حاصل کریں گے۔ اسی لیے دنیا کو جوبائیڈن سے خارجہ امور پر کسی بڑے معرکے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اِس موقعے پر دوسری عالمی جنگ کے اختتامی سال یاد آتے ہیں۔
عالمی جنگ کی مغربی فتح میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم، چرچل کا مرکزی کردار تھا۔یہ اُن ہی کی سیاست اور استقامت تھی، جس نے جرمنی کے ہٹلر کو شکست دی اور یورپ کو آزاد کروایا، لیکن جب وہ جنگ کے فوراً بعد انتخابی میدان میں اُترے، تو اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔وہ بھی مغربی قوم پرستی کے داعی تھے، لیکن برطانوی عوام نے اقتصادی بحالی کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہوئے اُن کی بجائے نئی قیات کا انتخاب کیا، جس نے سب سے پہلے برطانیہ کو عالمی تنازعات سے نجات دِلائی۔برطانیہ ایک، ایک کرکے اپنی کالونیوں سے نکلتا رہا اور پھر خود کو ایک جزیرے تک محدود کرلیا۔ٹرمپ نے کوریا سے لے کر مِڈل ایسٹ تک سینگ پھنسائے، تو چین کے ساتھ ٹریڈ وار میں بھی الجھے رہے اور مغربی ممالک کے حلیفوں سے بھی کشیدگی رکھی۔بہت سے مقامات پر کام یاب بھی رہے اور اب اُن کے جانشینوں کے لیے بھی اُن کے فیصلے رد کرنا ممکن نہیں، لیکن بہرحال وہ عالمی اور مُلکی سیاست کے منظر سے آؤٹ ہوچُکے ہیں۔
عالمی رہنماؤں میں کورونا کا ایک اور شکار جاپان کے انتہائی مقبول وزیرِ اعظم، شنزو ایبے ہیں۔وہ جاپان کا فوجی کردار دوبارہ بحال کرنے کے حامی تھے۔ شنزو بظاہر صحت کے مسائل کے سبب مستعفی ہوئے، لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ وہ کورونا کے خلاف اپنی ناکامی سے بہت پریشان تھے۔تاہم،دنیا کی دوسری بڑی طاقت، چین کی قیادت پر کورونا زیادہ اثر انداز نہ ہوسکا۔شی جن پنگ بدستور صدر ہیں، حالاں کہ اس وبا کا آغاز چین کے شہر ووہان ہی سے ہوا تھا، لیکن وہ اس پر قابو پانے میں کام یاب رہے، جس کی دنیا معترف بھی ہے۔ اقتصادی بحالی میں بھی وہ سب سے آگے ہیں اور ماہرین کے نزدیک اس کی وجہ اُن کی وہ شان دار کام یابی ہے، جو رواں صدی کی ابتدا سے شروع ہوئی۔ چین اِتنی معاشی مضبوطی قائم کرنے میں کام یاب رہا کہ کورونا جیسی تباہ کُن وبا کے وار بھی اُسے زیادہ نقصان نہ پہنچا سکے۔
اِس بات نے دنیا کو غور پر مجبور کردیا کہ کیا چین کا طرزِ حکم رانی معیشت اور عوام کی خوش حالی کے لیے جمہوریت کا بہتر متبادل ہے؟ 2021 ء میں بھی وہی چینی قیادت موجود ہوگی، جس نے اس بحران سے اپنے مُلک کو نکالا۔دوسری طرف، مغربی دنیا میں کورونا نے طوفان برپا کردیا۔توجّہ طلب بات یہ ہے کہ مغربی دنیا میں ٹرمپ کے علاوہ قیادت میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں۔یورپ سے نیوزی لینڈ تک سب ممالک کے حکم ران اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔
بھارت میں بھی،جو دنیا کی دوسری بڑی آبادی والا مُلک ہے، قیادت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔بریگزٹ کا بِل، جو گزشتہ چار سالوں سے برطانیہ کے حکم رانوں کے لیے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا، کورونا کے دوران بھاری اکثریت سے منظور ہوا اور برطانیہ ایک معاہدے کے ذریعے یورپ سے الگ ہوگیا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایسا گمبھیر معاملہ کسی بڑے تنازعے کے بغیر اختتام کو پہنچا، یہ بذاتِ خود جمہوریت کی ایک بے مثال کام یابی ہے۔کیا یورپ اور برطانیہ میں عدالتیں نہیں؟ وہاں سیاسی جماعتیں نہیں؟ فوج اور دیگر طاقت ور ادارے نہیں؟ سب ہیں، لیکن فیصلہ عوام کے ووٹس ہی سے ہوا۔اب قیادت کی ذمّے داری ہے کہ وہ اقتصادی بحالی کے مراحل طے کرے اور یہ اُن کے لیے بہت زیادہ مشکل بھی نہیں، کیوں کہ اُنھیں محض چار برس قبل رُونما ہونے والے عالمی اقتصادی بحران سے نمٹنے کا تجربہ ہے۔
ویسے بھی کورونا کی دوسری لہر کے باوجود معاشی بحالی کے اشارے گزشہ سال کی آخری سہ ماہی ہی سے مثبت آنے لگے تھے۔ پھر ویکسین آنے سے بھی اعتماد میں اضافہ ہوا۔بھارت نے، جو دنیا بھر میں ویکسینز کی کل تعداد کا 75 فی صد بناتا ہے،اعلان کیا ہے کہ وہ آکسفورڈ ویکسین کی ایک ارب خوراکیں (ڈوز) بنائے گا، جو انتہائی کم قیمت پر دست یاب ہوں گی۔اسی طرح چین کی بھی کوشش ہے کہ اس میدان میں تیزی سے آگے بڑھے۔یوں نئے سال میں وہ تمام محرکات موجود ہوں گے، جن سے عالمی معیشت کی بحالی ممکن ہوسکے۔
تیل کی کم قیمتوں اور ایرانی ایٹمی معاملات پر تحفّظات نے عرب دنیا کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔نیز،امریکا نے بھی اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ شہزادہ محمّد بن سلمان تیزی سے سعودی عرب میں اصلاحات لارہے ہیں۔ایران، امریکی قیادت میں تبدیلی کا منتظر رہا اور اسی لیے صفِ اول کے ایٹمی سائنس دان کی ہلاکت کے باوجود ’’ انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر گام زن ہے۔ماہرین کی رائے ہے کہ اگر ایرانی قیادت دو، تین آپشنز سامنے رکھتے ہوئے سعودی عرب سے بات چیت کرتی، تو شاید اسرائیل سے تعلقات کا معاملہ ٹل سکتا تھا۔تُرکی نے شروع میں عرب، اسرائیل تعلقات پر سخت موقف اختیار کیا، تاہم سال کے اختتام پر اپنا سفیر اسرائیل میں تعیّنات کرکے دنیا کو واضح پیغام دیا۔
طیّب اردوان نے’’ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل سے بھی دوستی‘‘ کی پالیسی اپنائی ہے۔وہ نہیں چاہتے کہ تُرکی کو جو نقصان ٹرمپ کے زمانے میں روس سے تعلقات اور یورپ سے تلخی کی وجہ سے ہوا، وہ جوبائیڈن کے دَور میں بھی جاری رہے۔وہ غالباً امریکی قربت اور نیٹو کے اتحادی کا کردار دوبارہ مضبوط کرنے کی پالیسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔قطر دوبارہ خلیج تعاون کاؤنسل کا فعال رُکن بن گیا ہے۔
اس کے امیر نے سعودی عرب میں ہونے والے خلیج کاؤنسل کے اجلاس میں شرکت کی اور باہمی یک جہتی کے اعلامیے پر دست خط کیے۔سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک نے اپنی سرحدیں کویت کے لیے بھی کھول دی ہیں۔اس طرح 2017 ء میں شروع ہونے والا تنازع تین سال بعد اختتام کو پہنچا۔ پاکستان کو خارجہ اور اندرونی طور پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔
اسے معیشت بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے دوستوں سے کم زور پڑنے والے تعلقات دوبارہ مستحکم کرنے ہوں گے۔ اگر چین کو اولیت حاصل ہے، تو تجارت کے نقطۂ نظر سے امریکا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ بھی انتہائی اہم ہیں۔ ہماری زیادہ تر تجارت انہی ممالک کے ساتھ ہے۔اگر ہمیں اپنی برآمدات بڑھانی ہیں، جو ترقّی کے لیے ناگزیر ہے، تو ان ممالک سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے۔تیل کی کم قیمتوں اور کورونا کے اثرات اب تارکینِ وطن کی جانب سے بھجوائی جانی والے رقوم پر بھی مرتّب ہوں گے۔
ویسے بھی کسی مُلک کی اقتصادی پالیسی میں پیداوار اور برآمدات ہی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں۔ہمیں ہر حال میں اپنے مُلک میں انڈسٹری اور پیداوار کو برق رفتاری سے بڑھانا ہوگا، وگرنہ کئی بحران سَر پرکھڑے ہیں، جن میں سرفہرست روزگار کا مسئلہ ہے۔رواں برس کم ازکم دس لاکھ نئی اسامیاں نکالنی ہوں گی، لیکن دو سے بھی کم ترقّی کی شرح میں ایسا کرنا ناممکن ہے۔
اب وعدوں اور انتظار پر لوگوں کا گزارہ مشکل ہوگا، پہلے ہی ڈھائی سال’’ گھبرانا نہیں، این آر او نہیں دوں گا‘‘ جیسی باتوں میں گزر گئے۔ علاوہ ازیں،یہ بات بھی پریشان کُن ہے کہ بین الاقوامی مقدمات میں قومی خزانے سے اربوں روپے کے جرمانے ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔براڈ شیٹ کیس میں نیب پر چھے ارب روپے کا جرمانہ ہوا۔
اسی طرح ریکوڈک کا معاملہ بھی موجود ہے، جس میں چھے ارب ڈالر جرمانے کا خطرہ ہے۔خارجہ امور کس طرح معاشی معاملات سے گڈ مڈ ہو رہے ہیں؟ اس پر فوری توجّہ کی ضرورت ہے۔پھر یہ بدنامی الگ کہ پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری نہیں کرتا۔کشمیر اور افغانستان کے معاملات ہماری خارجہ پالیسی کی زیادہ تر توانائیاں لے لیتے ہیں، لیکن ہمیں غور کرنا ہوگا کہ مستقبل میں کیا کیا جائے۔
افغانستان سے تو بہرحال امریکا چلا جائے گا، لیکن ہمیں کیا ملے گا؟بہت سارے علاقائی کھلاڑیوں کی موجودگی کے سبب اس معاملے میں ہمارے لیے اسپیس بہت گھٹ گئی ہے۔نئے دَور میں افغانستان کو سرمائے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی، کیا ہم ان میں سے کوئی بھی ضرورت پوری کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟کشمیر پر بھارت بہت آگے بڑھ چُکا ہے۔وہ آئین میں ترمیم، جبر اور ظلم کے تمام حربے استعمال کر رہا ہے۔
ہماری پالیسی یہ رہی کہ اسے دنیا کے سامنے ایکسپوز کریں، لیکن یہ بھی سوچنا ہوگا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کےعوام پر براہِ راست اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔امن ترقّی کے لیے ضروری ہے اور اس کے لیے سرحدوں پر کشیدگی ہی کم نہیں کرنی ہوگی، معاملات بھی بہتر کرنے ہوں گے۔
ٹریک ٹو یا براہِ راست ڈپلومیسی کہاں تک کام آسکتی ہے؟ اس پر مختلف زاویوں سے غور کرنے میں کیا حرج ہے۔گزشتہ برس کے آخری تین مہینوں میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سائے تلے اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں کا سیاسی اتحاد سامنے آیا، جو حکومت اور خاص طور پر وزیرِ اعظم عمران خان کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے۔اپوزیشن استعفوں اور مِڈٹرم الیکشن کی بات کر رہی ہے اور کسی ایسے حل کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جس میں اس کے مطابق آئین کی بالادستی ہو۔اس تحریک کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں نوجوان قیادت کو آگے لائی ہیں۔نون لیگ کی جانب سے مریم نواز ایک بڑی لیڈر کے طور پر سامنے آئیں۔
اُنہوں نے پارٹی میں بھی خود کو منوایا اور عوام میں بھی جگہ بنائی ہے۔پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹّو بھی قومی سطح کے لیڈر بن کر اُبھرے ہیں، لیکن شاید وہاں اب بھی بزرگ لیڈرشپ کی رائے فوقیت رکھتی ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ نوجوان قیادت کی شروعات مفاہمت اور دوستی سے ہوئی۔
غالباً سیاسی جماعتوں نے ماضی سے کافی کچھ سیکھ لیا ہے۔مُلک کی باسٹھ فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اسی میں سے لیڈر شپ آ رہی ہے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اسے سینئیر لیڈر شپ نے قبول بھی کیا ہے۔پارٹی سیاست اپنی جگہ، لیکن قومی لیڈر شپ کی بروقت تبدیلی کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔