• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی خزانے کو بھاری نقصان لیکن براڈشیٹ پر کوئی تحقیقات نہیں

اسلام آباد (انصار عباسی) براڈ شیٹ کیس نے نہ صرف قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے اور کک بیکس کے نئے الزامات بھی سامنے آئے ہیں لیکن ساتھ ہی پاکستان کیلئے یہ معاملہ بدنامی کا باعث بھی بنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ معلوم نہیں کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات یا پھر کسی پر ذمہ داری عائد کرنے کے حوالے سے یا پھر حقائق سامنے لانے کے حوالے سے کچھ کر بھی رہی ہے یا نہیں۔ 

حکومت کی جانب سے جو کچھ بھی مختلف عہدیداروں کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے اور جو کچھ بھی ترجمان یا وزراء دعویٰ کر رہے ہیں؛ ان سے نہ صرف پریشانی بڑھ رہی ہے بلکہ اس اہم ترین معاملے پر تضادات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ 

گزشتہ منگل کو کابینہ اجلاس کے بعد، وزیر برائے اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ براڈشیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ 

انہوں نے کہا، ’’مختلف انٹرویوز سامنے آئے ہیں اور لندن ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس معاملے کی مزید تحقیقات کرے گی۔ کمیٹی نہ صرف باریک بینی سے اس معاملے کی تحقیقات کرے گی بلکہ یہ بھی بتائے گی کہ ملکی دولت کیسے لوٹی گئی اور کس طرح اس کمپنی سے کسی خود کو نواز شریف کا کزن ظاہر کرتے ہوئے رابطہ کیا جس نے اس معاملے سے خاندان کا نام مٹوا دیا جس کے بعد ہی کمپنی کے سی ای او نے کہا کہ ہم چوروں کیساتھ کام نہیں کرتے۔‘‘ 

وزیر نے بین الوزارتی کمیٹی کی تفصیلات ظاہر کیں اور نہ ہی اس معاملے پر حکومت کی جانب سے کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ رابطہ کرنے پر باخبر ذرائع اور کابینہ کے چند وزراء نے دی نیوز کو بتایا کہ کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں یہ معاملہ ایجنڈا کا باضابطہ حصہ تھا اور نہ ہی اجلاس میں اس پر بات ہوئی۔ 

ایک وزیر نے کہا کہ یہ معاملہ حکومتی / پی ٹی آئی کے ترجمانوں کے اجلاس میں زیر بحث آیا تھا۔ اس اجلاس کی قیادت وزیر اعظم عمران خان نے کی تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ اجلاس کا مقصد وہ نکات میڈیا میں سامنے لانا تھے جو براڈشیٹ کے مالک نے مبینہ طور پر نواز شریف کے حوالے سے کہے تھے۔ ایک سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ کیس کابینہ کے ایجنڈا کا حصہ نہیں تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں یہ معاملہ اٹھایا گیا اور نہ اس پر بحث ہوئی۔ یہ بات کابینہ میٹنگ کے منٹس میں بھی موجود ہے۔ ذریعے نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ کابینہ کا اجلاس باضابطہ طور پر ختم ہونے کے بعد معاملے پر بات ہوئی ہو۔ 

رابطہ کرنے پر کابینہ کے دو ارکان نے بتایا کہ کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر بات نہیں ہوئی۔ براڈشیٹ کے مالک موساوی نے اپنے مختلف انٹرویوز میں پہلے نواز شریف کیخلاف بیانات دیے۔

ان کے مبینہ طور پر سنگاپور کے بینک اکائونٹ میں ایک ارب ڈالرز کا ذکر کیا اور ساتھ ہی ان کے ایک رشتہ دار کی جانب سے براڈشیٹ کو رشوت دینے کا بھی ذکر کیا لیکن بعد میں موساوی نے نہ صرف نیب پر تنقید کی بلکہ پی ٹی آئی حکومت کے کچھ عہدیداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ 

حتیٰ کہ یہ بھی بتایا کہ سینئر سرکاری عہدیدار نے 2019ء میں رابطہ کرکے کہا کہ اگر براڈشیٹ سے خدمات لی جاتی ہیں تو نواز شریف کے مبینہ ایک ارب ڈالرز کی ریکوری کی صورت میں اس عہدیدار کو حصہ دیا جائے گا۔ 

موساوی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے حکومت سے ڈیل کرنے سے انکار کر دیا جبکہ بیریسٹر شہزاد اکبر، جنہوں نے براڈشیٹ کے مالک سے ملاقات کی تھی، کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ کی تجویز حکومت کیلئے موزوں نہیں تھی۔ 

ذرائع کا کہنا تھا کہ موساوی کے نواز شریف یا پھر پی ٹی آئی حکومت کے سینئر عہدیدار کے خلاف الزامات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں لیکن حکومت نے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا۔ 

نیب کے کردار اور اس کے براڈشیٹ کے ساتھ کیے گئے اصل معاہدے اور اس کی تنسیخ کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کی بھی تحقیقات ہونا چاہئیں لیکن یہاں بھی کچھ نہیں کیا جا رہا۔ 

دفتر خارجہ کی 8؍ جنوری 2021ء کی دستاویز، جو اتوار کو دی نیوز میں شائع ہوئی، سے معلوم ہوتا ہے کہ دفتر خارجہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی برطانیہ میں موجود شاخ کیخلاف 29؍ ملین ڈالرز حکومتِ پاکستان کی اجازت کے بغیر براڈشیٹ کے اکائونٹ میں ڈالنے کے معاملے پر مہنگی قانونی مقدمہ بازی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ 

وزارت کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں لاکھوں ڈالرز مالیت کے برطانیہ میں لڑے جانے والے اس کیس کے حوالے سے اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ نیب ترجمان نے اسی خبر میں کہا تھا کہ براڈشیٹ ایشو کا بیورو کی موجودہ انتظامیہ اور چیئرمین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ موجودہ چیئرمین نیب نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے براڈشیٹ سے جڑے معاملات وفاقی حکومت کے روبرو پیش کیے جس کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو ادائیگیوں اور بقایہ جات کے معاملات، اگر کوئ ہیں تو، طے کرے گی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ 26؍ اکتوبر یعنی لندن ہائیکورٹ کے براڈشیٹ کیس سے ہفتوں قبل، نیب نے ای سی سی سے درخواست کی تھی کہ ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ (تکنیکی ضمنی امداد) کے نام پر براڈشیٹ کو 433.091؍ ملین روپے ادا کرنے کی منظوری دی جائے۔ 

ای سی سی نے 4؍ نومبر کو نیب کی سمری پر غور کیا اور تجویز کی منظوری دیدی۔ رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات شبلی فراز نے تصدیق کی کہ براڈشیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے بین الوزارتی کمیٹی کا قیام وزیراعظم کا فیصلہ تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کا نوٹیفکیشن کسی بھی وقت جاری کر دیا جائے گا۔ شبلی نے بتایا کہ کمیٹی کے سربراہ وہ خود ہوں گے جبکہ دیگر ارکان میں فواد چوہدری اور ڈاکٹر شیریں مزاری شامل ہیں۔ 

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ کمیٹی براڈشیٹ اسکینڈل کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے گی اور اس بات کو سامنے لائے گی کہ قومی خزانے کو ہونے والے اس نقصان میں کس کا کیا کردار تھا۔

تازہ ترین