• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز شریف من موہن سنگھ نوبل امن انعام شیئر کریں گے!حالیہ انتخابات میں واضح اور اکثریتی ووٹوں سے جیت کر آنے والے نواز شریف اگر دھاندلیوں کی دھاندلی اور بڑی ٹوپیوں اور فور اسٹار سازشوں سے بچتے بچاتے تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہوتے ہیں تو انہیں بات وہیں سے شروع کرنی چاہئے جہاں سے ٹوٹی تھی۔ وہی فروری1999ء والے دن سے جب سرحد پار سے بس پر سوار اس وقت کے بھارت کے شاعر وزیر اعظم لاہور پہنچے تھے اور انہوں نے علی سردار جعفری کی یہ سطریں دہرائی تھیں
گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے
صبح سے شام تلک ملاقات چلے
ریگزاروں سے عداوت کہ گزرجائیں گے
خون کے دریاؤں سے ہم پار اتر جائیں گے
علی سردار جعفری نے یہ نظم 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے فوری بعد لکھی تھی۔
کتنی عجیب بات ہے، سندھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اسی ساجھے پنجاب میں بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑتے رہنے کا نعرہ لگا کر1970ء کے انتخابات اکثریت سے جیت کر آئے تھے لیکن اب اسی پنجاب سے پنجابی وزیر اعظم واضح اور اکثریتی ووٹ لیکر آنے سے پہلے اور بعد مین بھارت سے ببانگ دہل دوستی کی بات کر رہے ہیں۔ بات وہیں سے شروع کرنی چاہے جہاں سے ٹوٹی تھی۔ ہاں، پھر اسی موڑ سے جہاں سے وہ بس مس ہوئی تھی۔ سابق فوجی آمر مشرف کی اندرون ملک پالیسیوں پر کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں لیکن ان کے آخری سالوں میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور ان کی حکومت کے درمیان کشمیر پر ”بیک ڈور“ بات چیت جہاں اپنے نتائج پر پہنچتے پہنچتے حادثاتی طور پر اس لئے ٹوٹ گئی تھی کہ شاید پرویز مشرف کو کسی نجومی نے کہا ہوگا کہ عدلیہ سے پنگا لیکر اپنے ستارے گردش میں لے آؤ۔
خیر، جہاں سندھی وزیر اعظم سیکورٹی رسک سمجھے جاتے ہیں وہاں پنجابی وزرائے اعظم پھر وہ بھارت کے ہوں کہ پاکستان کے، دونوں پڑوسی لیکن تاریخی حریف ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لے آنے پر بے خوفی سے فیصلے کرنے کی قوت متوقع کی جا سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں استاد دامن کا یہ امر مصرعہ کبھی پرانا نہیں ہوتا کہ ”لالی اکھاں دی پئی دسدی اے روئے تسی وی ہو روئے اساں وی ہاں“۔
بے نظیر بھٹو جب1990ء میں بھارت کے سندھی نژاد رہنما ایل کے ایڈوانی سے ملنے گئی تھیں تو سلمان تاثیر کو بھی ساتھ لے گئی تھیں۔ بے نظیر پر تو پاکستان میں سکھ ٹریننگ کیمپوں کی فہرست راجیو گاندھی کو فراہم کرنے پر بھائی لوگ نکتہ چینی کرتے نہیں تھکتے لیکن شاید ان کو معلوم نہیں کہ فوجی آمر ضیاء الحق کو ان کے خلاف فوجی بغاوت سے جس کے ملزم پھر نام نہاد اٹک سازش کے قیدی بنے کے بارے میں خبردار بھارتی جاسوسی ایجنسی را نے کیا تھا۔
یہ بھی تاریخ کا کیسااتفاق ہے کہ پاکستان کے منتخب ہو کر آنے والے وزیر اعظم کے خاندان کا تعلق جاتی امرا اور بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کا تعلق اب پاکستان کے چکوال کے ایک گاؤں سے ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کسی دوست نے مذاق کیا کہ بنگلہ دیش کو آزاد بنگالیوں نے نہیں ایک پنجابی جنرل اروڑا نے کرایا تھا۔
دونوں پنجابوں یعنی اب مغربی اور مشرقی پنجاب میں منقسم لوگوں اور خاندانوں سے زیادہ بٹوارے اور اس سے بھی زیادہ اس کے خونی فسادات کے زخموں کا درد ان پنجاب کے لوگوں سے زیادہ کسے ہو گا لیکن ایک دفعہ بھارت کے کے آر ملکانی نے کہا تھا کہ جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی تک کے مشیروں میں شاذ و نادر ہی کوئی پنجابی یا بنگالی تھا۔ راوی ، چناب، ستلج ، بیاس یا پانچ دریاؤں کے پلوں سے پانی نہیں خون کے دریا گزر چکے ہیں۔ خود نواز شریف اپنی معزولی، قید و سزا، جلاوطنی اور پھر وطن واپسی پر تبدیلی صرف سر کے بالوں کا پیوند نہیں لائے پر ”چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا“ جیسی سطر کا سواد لے کر لوٹنا چاہئے تھے۔ اب ان کی نظر پریس فوٹو گرافر اور ٹی وی چینلوں کے کیمرہ مین پر نہیں مستقبل کے مورخ کے قلم پر ہونی چاہئے۔ وہ جو کہتے ہی نا سیاستدان کی نظر اگلے انتخابات پر لیکن مدبر کے نذر آنے والی نسلوں پر ہوا کرتی ہے۔ کس نے جانا ہے کہ تاریخ دونوں طرف کے پنجابی نژاد وزرائے اعظم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہو۔
پاکستان میں بھاری اور واضح اکثریت سے جیت کر آنے والے نواز شریف نے تو اپنے عہدے کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انتخابات جیتنے کے فوری بعد انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ برسراقتدار آئے تو کارگل پر تحقیقات کرائیں گے اور اس کی رپورٹ کی ایک نقل بھارت کو بھی فراہم کریں گے۔ کارگل وہ ناکارہ مہم جوئی تھی جس سے دونوں اطراف بے گناہ جوان مارے گئے جن کی لاشوں کے تابوتوں میں بھی غبن ہوئے۔ اس کارگل پر مہم جوئی کی تحقیقات کی بات صرف نواز شریف ہی کر سکتے ہیں۔ وگرنہ جب صدر آصف علی زرداری نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں بھارت سے دوستی بڑھانے کی بات کی تھی تو پھر نومبر میں ممبئی دہشت گردی ہو گئی تھی۔ امریکی صحافی اسٹیو کول نے ہفت روزہ جریدے ”نیویارکر“ میں ممبئی حملوں کو صدر آصف زرداری کو ان کی بھارت کی طرف دوستی کی پیشکش کا جواب قرار دیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان سے بھارت کے ساتھ دوستی نہ چاہنے والی غیر جمہوری قوتوں نے کارروائی صدر آصف زرداری کو ڈرانے کیلئے کی تھی۔ اس کے بعد سندھی کہاوت کے مصداق کہ کتیا نے اپنے کان کٹوا ڈالے۔نواز شریف کے نزدیک ملک کے سب سے تین بڑے مسئلے معیشت، معیشت اور معیشت ہیں اور معشیت کی مضبوطی اس حال میں ناممکن ہے جب قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہاتھی کھا جاتا ہو۔ اس دو ہزاری میں دونوں سب سے قریبی پڑوسی پینسٹھ سال سے اب تک ایک دوسرے کے بڑے حریف ہیں، یہ ہو سکتا ہے دونوں ممالک کی دفاعی اسٹیبلشمینٹ اور ہتھیاروں کی کمیشن خور مافیا تو چاہتی ہو لیکن عوام ہرگز نہیں چاہتے۔ اب یہ سربجیت اور ثناء اللہ خونی ادلے بدلے ختم ہونے چاہئیں۔ مہربانوں نے بہت دیر کی لیکن درست قبلہ ڈھونڈ نکالا (اگر یہ محض لفاظی نہیں) کہ اصل دشمن بھارت نہیں انتہاپسندی ہے۔دونوں ملکوں کی اصل طاقت ایٹم بم نہیں دونوں ممالک کی درمیان مضبوط تعلقات اور مضبوط دوستی ہے۔ ایٹم بم تو دونوں قوموں کے مستقبل کے خودکش دھماکے ہیں۔ اگر ہیوی مینڈیٹ اس دفعہ واقعی ہے تو پھر بھارت کے ساتھ معاملات سمیت خارجہ پالیسی جیسے امور کسی ادارے کو نہیں منتخب حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں۔ اب وزیراعظموں کو اپنے ہی بھاری مینڈیٹ تلے دب کر کچلے جانے کی رسم کو خیر آباد کہنا چاہئے۔ ہیوی مینڈیٹ کی اب حقیقی آزمائش ہے کہ اب بھی منتخب وزیر اعظموں کی واسکٹوں کے کالروں میں خفیہ مائیک فٹ کئے جاتے ہیں کہ نہیں! من موہن سنگھ کو بھی بھارتی دفاعی اسٹیبلشمنٹ پر نہیں سرحد پار دوستی کی آواز پر کان نہیں، دل رکھنا چاہئے۔ چیف صاحب !بات سے بات چلنی چاہئے۔ کون جانے کل امن کا نوبل انعام من موہن سنگھ اور نواز شریف کے شیئر کرنے کو تاریخ میں مشترکہ لکھا ہو۔
تازہ ترین