• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف کے دور میں سیاستدانوں بیوروکریٹس اور طبقہ اشرافیہ کے بڑے ناموں پر مشتمل دو سو شخصیات کے بیرون ملک خفیہ اثاثوں کا سراغ لگانے کے لئے قومی احتساب بیورو (نیب) اور برطانوی کمپنی براڈ شیٹ کے درمیان ہونے والے معاہدے، بعد میں اس کی منسوخی، برطانوی عدالت میں اس حوالے سے مقدمہ بازی اور بالآخر عدالتی فیصلے کے تحت براڈ شیٹ کو لاکھوں ڈالر کی ادائیگی کے علاوہ مبینہ طور پر ایک غیرمتعلقہ کمپنی کو بھی بڑی رقم ادا کئے جانے کا ااسکینڈل سامنے آنے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیا سیاسی محاذ کھل گیا ہے۔ مشیر احتساب شہزاد اکبر نے ایک پریس کانفرنس میں برطانوی عدالت میں چلنے والے کیس کی بعض دستاویزات جاری کردی ہیں جن میں نیب براڈ شیٹ سمجھوتے کے پسِ منظر سمیت کئی دوسری تفصیلات شامل ہیں۔ حکومتی حلقے اس ااسکینڈل کو پانامہ پیپرز کے بعد کرپشن کا ایک اور بڑا کیس قرار دے رہے ہیں جبکہ اپوزیشن اسے اپنے حق میں استعمال کررہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے معاملے کی تحقیقات کے لئے وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز کی سربراہی میں تین رکنی کابینہ کمیٹی قائم کی ہے جس نے اپنی رپورٹ سفارشات کے ساتھ پیش کردی ہے۔ اس دوران حکومت اور اپوزیشن میں اس معاملہ پر ایک دوسرے کے خلاف لفظی جنگ تیز ہو گئی ہے۔ مشیر احتساب شہزاد اکبر کے مطابق ماضی میں بعض لوگوں کو این آر او دینے کا خمیازہ بھگتتے ہوئے قوم کو کچھ حاصل کئے بغیر29 ملین ڈالر ادا کرنا پڑےجبکہ 20ملین ڈالر کی ادائیگی ایون فیلڈ اور نواز شریف کے دوسرے اثاثوں پر ہوئی۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ لندن عدالت کے مطابق نواز شریف فیملی کی 80کروڑ ڈالر مالیت کی 76جائیدادوں کا انکشاف ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ براڈ شیٹ 20سال پہلے کے اثاثوں کی تحقیقات کررہی تھی۔ گزشتہ دس سال کا حساب تو ابھی آنا ہے۔ حکومتی مؤقف کے جواب میں مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ حکومت براڈ شیٹ سے کمیشن مانگتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے۔ پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ نواز شریف کے خلاف جھوٹا بیانیہ گھڑا گیا۔ تحقیقات کو 20سال گزر گئے مگر اب تک چوری کا مال صفر برآمد ہوا۔ برطانوی عدالت نے اس معاملے میں نیب کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ براڈ شیٹ کو کام کرنے دیا جاتا تو نامزد لوگوں کے خفیہ اثاثے تلاش کرلیتی مگر اسے روک دیا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مشرف دور میں نیب نے 200افراد کے نام براڈ شیٹ کو دے کر اس سے معاہدہ کیا تھا کہ بیرون ملک ان کے اثاثوں کا سراغ لگایا جائے تاکہ ان کے خلاف کاروائی کی جاسکے مگر آنے والے وقت میں نیب اس پر قائم نہ رہ سکا ان افراد میں سے بعض نے این آر او لے کر معاملہ رفع دفع کرادیا۔ باقی نے حکومت سے پلی بارگین کرکے اسے دبادیا۔ براڈ شیٹ کو کام مکمل کرکے جو کمیشن ملنا تھا وہ اس نے کام کئے بغیر عدالت کے ذریعے وصول کرلیا۔ پانامہ لیکس اور براڈ شیٹ اسکینڈل میں بظاہر کوئی مماثلت نہیں لیکن تحقیقات کی جائے تو قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے کئی پہلو اور اس کے ذمہ دار کئی کردار سامنے آسکتے ہیں تاہم یہ تحقیقات غیرجانبدارانہ ہونی چاہئے تاکہ کسی سے رو رعایت کا شائبہ نہ ہو۔ خاص طور پر اس لئے بھی یکطرفہ کاروائی دکھائی نہیں دینی چاہئے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن عوام کے مسائل چھوڑ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ براڈ شیٹ اسکینڈل انہیں باہم دست و گریباں رہنے کا ایک اور موضوع فراہم کردے گا۔ شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات سے ہی پتا چل سکے گا کہ حکومتیں کس طرح ذاتی مفادات کے لئے قومی خزانے کے لٹنے کی پروا نہیں کرتیں اور خاموشی سے ایسے فیصلے کر لیتی ہیں جن کا قومی مفاد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔

تازہ ترین