• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگِ آزادی کے سالار خان عبدالغفار خان کی آج 33ویں برسی منائی جارہی ہے، آپ درویش صفت انسان تھے، کھدر کا معمولی لباس جو زیب تن رہتا، خود دھوتے، دورانِ سفر مختصر پوٹلی خود اُٹھاتے، عمر بھر ایسی غذا پر گزر بسر کی جو عام لوگوں کو میسر ہوتی ہے، اپنے علاقے اشنغر کے بڑے خان تھے لیکن خود کو مٹا دینے کی یہ ادا قوم کو ایسی پسند آئی کہ باچا خان کا خطاب دیا اور ایک صدی گزرنے پر آج بھی بادشاہ سے بڑھ کر عوام کے دلوں میں آپ کیلئے احترام ہے۔ آپ کی زندگی و جدوجہد نے خطے کی پوری ہم عصر آبادی کو اپنی جانب متوجہ رکھا۔ کوئی راہ نما کسی ایک یا دوسرے دور کو متاثر کرتا ہے، پھر پہلی سی شدت و تمازت باقی نہیں رہتی لیکن پروپیگنڈے کی طلسم کاریوں میں سے حقیقت کا روئے زیبا جیسے پہلے تھا، اب بھی ہے۔ 35برس جیل، 15سال جلاوطنی، انگریز مخالف مارچ کے دوران دونوں پسلیوں کا ٹوٹ جانا، جائیداد وں کی نیلامی ، کانگریس کی صدارت ٹھکرانا، اپنے صوبے میں جانے پر ایسی پابندی کہ محترم ولی خان اورمحترمہ نسیم ولی اٹک آتے ہیں اور باچا خان وہیں پر خود ہی نکاح پڑھا کر بیٹے و بہو کوپشاور رخصت کر دیتے ہیں۔ اہلیہ بیت المقدس، بیٹے پاکستان اور خود افغانستان میںمدفون ہیں۔دو سپرطاقتوں برطانیہ و امریکا اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا درد سربننے والے ایک درویش کی صرف ان چند جھلکیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کسی اور رزم و بزم سے ایسی کوئی مثال لائی جا سکتی ہے؟ فرنگی اعتراف کرتا ہے ’’1930تک وہی ہوا جو ہم چاہتے تھے، روس پسپا ہوا، کابل میں خاموشی چھا گئی اور سرحدوں پر امن قائم ہو گیا، ایسے میں ایک شخص عبدالغفار خان اٹھا اور پھر ہر طرف شورش و بے چینی پھیل گئی‘‘ (خفیہ دستاویزات شمالی مغربی سرحد صفحہ30) ۔ یہاں ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ پھر ایسی عہد ساز شخصیت پاکستان میں متنازع کیوں رہی ؟ درحقیقت باچا خان کی قد آور شخصیت سے خائف عناصر اس حوالے سے وہی فارمولا بروئے کار لائے جو انگریز کا آزمودہ تھا۔وائسرائے ہند لارڈ ارون نے 16اگست 1930کو وزیر ہند ویج ووڈ کو ایک مکتوب لکھا ’’خدائی خدمتگار تحریک کیلئے سرخ پوش نام انتظامیہ دانستہ استعمال کر رہی ہے تاکہ اس کا تعلق اشتراکیت سے جوڑا جائے،خدائی خدمتگار تحریک کا نام استعمال کرنے سے اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ یہ تنظیم نیک مقصد کیلئے قائم ہوئی ہے‘‘، (خفیہ دستاویزات انڈیا آفس لائبریری) یعنی جس طرح انگریز سرکار نے سرخ پوش کہہ کر اس تحریک کو اشتراکیت سے جوڑنے کی کوشش کی، اسی طرح پاکستان میں باچا خان کو پاکستان مخالف قراردینے کیلئے بھارت نواز ظاہر کرنے کی سازشیں بروئے کار لائی گئیں۔ باچا خان نے قوم کے بچوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کیلئے تعلیمی اداروں کے قیام کیلئے جدوجہد شروع کی تھی اور پختونوں کی باہمی عداوتوں کے خاتمے کی خاطر فلسفہ عدم تشدد متعارف کروایا ۔ اس سلسلے میںآپ نے اُس دور میں جب ذرائع نقل وحمل ناپید تھے، تین سال میں پختونخواکے تمام 500بندوبستی دیہات کا دورہ کیا۔ باچا خان نے دوسری قید 1921تا1924 بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی خاطر ہی کاٹی، سید بہادر شاہ ظفر کاکا خیل ’’پختون تاریخ کے آئینے میں ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ باچا خان کے اسکولوں نے قوم کی ایک بنیادی اور بڑی ضرورت کو پورا کر دیا تھا۔آپ نے جہاں جہالت، تشدد، غلط رسوم و رواج کے خلاف شمعیں روشن رکھیں وہاں عوام میں جاگیردارانہ سماج کے خلاف عظیم تحریک بپا کی، یہ بھی تاریخ ہے کہ برصغیر میں ووٹ کے حق کی خاطر چلائی جانے والی تحریک میں خدائی خدمت گار تحریک ہی سب سے آگے تھی، ایک مثال دیتے ہیں، 1937کے انتخابات کا معرکہ آیا تو مسلم لیگ نے خان بہادر میدان میں اتاردیے، چار سدہ کے ایک خان بہادر جو امیدوار تھے، انہیں بتایا گیا کہ خوشیکی نوشہرہ میں گڈریا ہے جس کے پاس بہت ووٹ ہیں چنانچہ اشنغر کے بڑے خانوں کا ایک وفد وہاں پہنچا۔ گڈریا یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خان کہاں کسی غریب کے گھر پر آتے ہیں یہاں تو پورا قافلہ آیاہے،جب خوانین ووٹ کیلئے منت سماجت کرنے لگے،تو گڈریا بے اختیار ناچتے ہوئے کہنے لگا کہ باچا خان کہا کرتے تھے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب بڑے بڑے خان تمہارے گھروں کے چکر لگائیں گے! یہ ووٹ تو باچا خان کا ہے جس نے ہمیں اس کا حقدار بنایا۔ ان انتخابات میںنواب سر محمد اکبر خان، سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان، ارباب شیر علی خان ، خان بہادر قلی خان جیسے بڑے جاگیردارخدمتگاروں سے شکست کھا گئے ۔پھر اس سے بھی بُرا حشر 1946کے انتخابات میں خدائی خدمت گاروں کے ہاتھوں خانوں، نوابوں اور جاگیرداروں کا ہوا۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب قیام پاکستان کے بعد اقتدار انگریز کے پروردہ عناصر کے ہاتھ آیا تو انہوں نے باچا خان کو عوام سے دور رکھنے کی خاطر کیا کیا ہتھکنڈے نہ بروئے کار لائے ہوں گے؟تاریخ کا سچ یہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر حکمرانوں نے اپنی مخالفت کو پاکستان کی مخالفت باور کراتے ہوئے باچا خان کو علیحدگی پسند کہا، اورباچا خان کو عوام سے دور رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا لیکن وہ تادم ِ مرگ اس مردِ قلندر کے عزم و استقلال کو شکست نہیں دے سکے ، ،پروین شاکرؔ نے کیا خوب کہا ہے:

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

تازہ ترین