• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ ایک والد کا فون آیا۔ اس نے روتے ہوئے کہا کہ اس کے سات سال کے بیٹے کی طبیعت سخت خراب ہے۔ اور چلڈرن ہسپتال میں ایک ایک بستر پر چار چار بچے لیٹے ہوئے ہیں جو کہ سب کے سب بیمار ہیں۔ ڈاکٹر بے بس ہیں اور حکومت بے خبر ہے۔ میں بچہ لے کر کدھر جاؤں؟
ذرا سوچئے بچے جو پہلے ہی نازک اور کمزور ہوتے ہیں۔ ان میں قوت مدافعت بھی کم ہوئی ہے۔ اگر ایک بستر پر چار چار بچے لیٹے ہوں گے تو کیا کراس انفیکشن نہیں ہوگی؟ بچہ بجائے تندرست ہونے کے کئی اور بیماریاں لے کر نہیں آجائے گا؟
اس وقت سرکاری سیکٹر میں سرکاری ہسپتال مسائل کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ لوگ تندرست کم ہوتے ہیں۔ نئی بیماریاں لے کر زیادہ آجاتے ہیں۔ پچھلے ہفتے صرف ایک دن میں لاہور چلڈرن ہسپتال میں 1100 گیارہ سو بچے ایمرجنسی میں لائے گئے۔ 2500 بچے آؤٹ ڈور میں علاج و معائنے کے لیے آئے۔ ایمرجنسی اور آؤٹ ڈور میں آنے والے مریض بچوں میں سے 490 بچوں کو مزید علاج کے لیے داخل کرنا پڑا۔ ان میں خسرے، پیٹ کی بیماریوں، ٹائیفائڈ دیگر بیماریوں اور زخمی ہو کر آنے والے بچے شامل تھے۔ ہسپتال کی انتظامیہ اور ڈاکٹرز کسی کو داخل کرنے سے انکار نہیں کرسکتے ۔ ہمت ہے ڈین پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اور میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر احسن وحید راٹھور کی کہ ان نامساعد حالات میں وہ کام کررہے ہیں۔
چلڈرن ہسپتال 250 بستروں کا ہسپتال ہے۔ جس کو زبردستی 684 بستروں کا ہسپتال بنایا گیا ہوا ہے۔ کیونکہ اس ہسپتال پر مریض بچوں کا دباؤ نہ صرف تقریباً پورے پنجاب سے ہے بلکہ کے پی کے اور بلوچستان سے بھی بچے یہاں علاج اور سرجری کے لیے آتے ہیں۔ ایک ایک بستر پر بعض وارڈز میں چار سے پانچ بچے لیٹے ہوتے ہیں۔ ذرا سوچئے ان بچوں کے ساتھ ان کے والد/والدہ یا کوئی اور عزیز و اقارب بھی ہوتا ہوگا کیونکہ یہ کوئی برطانیہ ، امریکہ یا عرب ممالک کی طرح ویلفیئر اسٹیٹ نہیں۔ جہاں پر مریض بچے یا بڑے مریضوں کو داخل کرایا اور لواحقین گھر چلے گئے۔ ہسپتال نے ادویات سے لے کر کھانا تک سب کچھ مہیا کیا۔ یہاں تو ہر چند لمحوں کے بعد ڈیوٹی ڈاکٹر یا ڈیوٹی نرس کی طرف سے ایک پرچی آتی ہے کہ فلاں دوائی لے آؤ۔ آپ کسی بھی ہسپتال میں میڈیکل سٹور بنالیں۔ دنوں میں لاکھوں اور کروڑوں پتی ہو جائیں۔ اپنے چوہدری برادران نے آجکل یہ کاروباربھی شروع کر رکھا ہوا ہے کہ کئی سرکاری ہسپتالوں میں بڑے چوہدری صاحب کے نام پر میڈیکل سٹورز قائم ہیں۔ کاش چوہدری برادران سرکاری ہسپتالوں میں قائم اپنے میڈیکل سٹورز کی کچھ مفید ادویات غریب مریضوں کے لیے مفت فراہم کریں اور باقی مریضوں کو بغیر کسی منافع کے ادویات فراہم کریں۔ غریب عوام کے غم میں دبلے ہونے والے شاید کچھ سمجھ سکیں کہ یہ دنیا بڑی عارضی ہے۔ (حالانکہ وہ دبلے شوگر سے ہورہے ہیں) ایک طرف اپنے مولانا فضل الرحمن ہیں۔ جو روز بروز موٹے ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ عوام ان کی طرح موٹے تازے اور صحت مند ہو جائیں۔ اس وجہ سے انہوں نے ہر جگہ مک مکا کی رفاہی سکیم پر کام شروع کردیا ہے۔
ہاں دوستوں ہم بات کررہے تھے چلڈرن ہسپتال کی۔ جس ہسپتال پر مریض بچوں کا اس قدر دباؤ ہوگا۔ وہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کا کیا عالم ہوگا؟ کیا اس طرف کسی نے توجہ دی۔ کیا کام کرنے والے ڈاکٹروں کی صلاحیت اور رویئے میں تبدیلی نہیں آئے گی؟
میاں محمد شہباز شریف نے اپنے پچھلے دوراقتدار میں جس طرح پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود (وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی) کی مشاورت سے ڈینگی کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا تھا اور ان کی ٹیم خواجہ سلیمان رفیق، ڈاکٹر سعید الٰہی اور ڈاکٹر اسد اشرف نے جس طرح دن رات کام کیا تھا وہ لائق تحسین ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ میاں شہباز شریف دوبارہ وزیراعلیٰ بن کر پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کے تجربے، مہارت اور مشاورت سے فائدہ اٹھا کر صوبے میں مریض بچوں کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات فوری طور پر کریں۔ اگر آج کے بیمار اور لاغر بچے مختلف بیماریوں کے ساتھ بڑے ہوں گے تو اس بیمار قوم نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ہر ایک ہزار میں سے آٹھ بچے دل کی مختلف بیماریوں کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں سرکاری ذرائع کے مطابق ہر سال 30 لاکھ اور غیر سرکاری ذرائع کے بقول 45 لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں۔ اس حساب سے پاکستان میں ہر سال 30 سے 35 ہزار دل کے نئے مریض بچے پیدا ہورہے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے دل میں پیدائشی سوراخ ہوتا ہے۔ جس کا علاج سرجری ہے۔ اس وقت بچوں کے دل کی سرجری پاکستان میں بہت ہی کم سرکاری ہسپتالوں میں ہورہی ہے۔ لاہور چلڈرن ہسپتال سال میں 500 سے 600 تک ایسے مریض بچوں کی سرجری کرتا ہے۔ ابھی پہلے بچوں کی سرجری نہیں ہو پاتی تو ہزاروں کی تعداد میں نئے دل کے مریض بچے آجاتے ہیں۔اس وقت چلڈرن ہسپتال میں دل کے مریض بچوں کو 2016ء کی تاریخ دی جارہی ہے۔ مسکرا مسکرا کر ہر سیاسی لیڈر سے ملنے والے مولانا فضل الرحمن نے کبھی اس پر بات کی۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں؟ کہ وہ دیگر جماعتوں کو ساتھ لیکر اس پر آواز اٹھائیں۔ تمام ممبران اسمبلی (قومی اور صوبائی) اس بات پر تو ہمیشہ سے اکٹھے ہوئے کہ ہماری مراعات بڑھا دی جائیں۔ کبھی اس پر اکٹھے ہوئے کہ ہر سال جو 35 ہزار بچے دل کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں۔ ان کے لیے اس ملک میں سٹیٹ آف آرٹ کے معیار کا بچوں کی علاج گاہ بنائی جائے۔
میاں محمد شہباز شریف صاحب آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نے ایک اور موقعہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کرسکیں۔ تو خدارا سب سے پہلے اپنی پہلی ترجیح عوام کو صحت کی سہولیات اور بہترین ہسپتالوں کے قیام اور پہلے سے قائم سرکاری ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن
دنیا کو ہمیشہ نقش فانی سمجھو
رودادِ جہاں کو اک کہانی سمجھو
پر جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو
کتنی حیرت والی بات ہے کہ پنجاب کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں اور کچھ دیگر سرکاری ہسپتالوں (نان ٹیچنگ ہسپتالوں) میں بچہ وارڈز ہیں۔ لیکن سارا دباؤ لاہور چلڈرن ہسپتال پر ہے۔ حالانکہ ایک چلڈرن ہسپتال ملتان اور راولپنڈی میں بھی ہے۔ یہ مانا کہ وہاں پر وہ سہولیات اور معیار نہیں۔ مگر جن ٹیچنگ ہسپتالوں میں مدتوں سے بچوں کے وارڈز ہیں۔ ان کو مزید بہتر کیا جائے۔ عوام کو آگاہ کیا جائے کہ وہ بچوں کی معمولی اور چھوٹی بیماریوں کے لیے لاہور چلڈرن ہسپتال آنے کی بجائے رورل ہیلتھ سنٹر، ڈسٹرکٹ اور تحصیل کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج کرا سکتے ہیں۔ ہاں جو پیچیدہ امراض ہیں ان کے لیے لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں لایا جائے۔ دوسرے اگر پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں کے بچہ وارڈز کو لاہور چلڈرن ہسپتال کے ساتھ منسلک کردیا جائے۔ تو اس سے بھی یقینا بہتری آئے گی۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ جب بھی کوئی بچہ کسی بھی ٹیچنگ ہسپتال کی ایمرجنسی میں لایا جاتا ہے۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر فوراً کہتا ہے کہ اسے چلڈرن ہسپتال لے جاؤ۔ یہ طریقہ کار، یہ رویہ اور انداز بالکل غلط ہے۔ بچوں کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور علاج گاہیں کم پڑ رہی ہیں۔ اس کے لیے ٹھوس اور جنگی بنیادوں پر پلاننگ کی جائے۔ اب تک پنجاب میں سو بچے خسرہ سے مر چکے ہیں اور خسرہ قابو میں نہیں آرہا۔
تازہ ترین