• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ قریب قریب واضح ہوچکا ہے۔ دھاندلیوں کے الزاما ت مخصوص حلقوں میں نہیں، مخصوص حلقے میں لگائے گئے۔ اس کے علاوہ جس قسم کا مینڈیٹ ابھر کر سامنے آیا ہے، اسے کسی سیاسی جماعت کے خلاف عوام کا ردِ عمل نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جس جماعت کو وفاقی سطح پر حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے، اس کی نمائندگی دیگر صوبوں میں اس طرح نظر نہیں آتی۔ ہاں البتہ اس کے اندر لسانی تفریق کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے دو بیانات آج موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ ایک بیان وہ جو انہوں نے 11اور12مئی کی درمیانی رات مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے دیا اور دوسرا وہ جو گزشتہ روز انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر جمع ہونے والے کارکنان سے خطاب کے دوران دیا کہ اگر کراچی کا مینڈیٹ تسلیم نہیں تو کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کیوں نہیں کردیتے؟
ان دونوں بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر توڑ مروڑ کر پیش کیاجارہا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ اگر ہم قرآن کی ایک آیت کا صرف ایک حصہ اس طرح بیان کریں کہ نماز کا رخ نہ کیا کرو اور صرف اسی حصے کو تکرار کے ساتھ بیان کرتے رہیں اور اگلا جملہ بتانے سے قصداً اجتناب کریں تو ذہن میں سوالات مختلف انداز میں ابھرتے ہیں۔ گو کہ اس آیت کا اگلا حصہ یہ ہے کہ نماز کا رخ نہ کیا کرو اگر تم نشے کی حالت میں ہو۔ الطاف حسین نے اگر کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی بات کی تھی تو وہ ان کا مطالبہ یا اعلان نہ تھا بلکہ ان لوگوں سے سوال تھا جو صرف اور صرف کراچی کو ہدف بنائے ہوئے ہیں جبکہ آزاد مبصرین کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے دوران 49/ایسے حلقے بھی دریافت ہوئے جہاں پر ووٹر ٹرن آؤٹ 100فیصد سے زیادہ رہا بلکہ بعض میں 200فیصد اور چند میں 300فیصد سے بھی زیادہ رہا۔ ان 49حلقوں میں سے32کا تعلق پنجاب سے تھا۔ تو کیا وہاں انہیں دھاندلی نظر نہ آئی؟ اس کے ساتھ ساتھ کراچی کے حلقے NA-250 کے اوپر تواتر کے ساتھ حملے کئے گئے لیکن اس کی ذیل میں آنے والے صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پر کسی نے انگلی نہ اٹھائی۔ اس تضاد سے احتجاج کرنے والوں کی نیت واضح ہوتی ہے۔ اب اگر صورتحال کو اس طرح سے خراب کیا جائے گا اور حقائق کو تسلیم کرنے سے پہلو تہی کی جائے گی تو صورتحال بگڑ سکتی ہے کیونکہ سندھ کے عوام نے اس مبینہ تبدیلی کو قبول نہیں کیا جو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام نے بظاہر دکھائی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی کارکردگی پر دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن 11مئی کو آنے والا فیصلہ اس کی کارکردگی کے خلاف نہیں ہے۔
نجی ٹیلی ویژن چینل پر سینئر تجزیہ نگار ہارون رشید فرماتے ہیں کہ وحدتیں بدلتی رہتی ہیں۔ آج پنجاب کی حدود یہ ہیں، ماضی میں کچھ اور تھیں۔ میں اسی جملے کو قبول کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ دنیا میں موجود جغرافیائی وحدتیں کبھی حتمی نہیں ہوا کرتیں، ہاں البتہ منصفانہ نظام اور شراکت اقتدار ان وحدتوں کو برقرار رکھتا ہے لہٰذا بلوچستان ، سندھ ، کراچی ہو یا خیبر پختونخوا، اگر نظام میں انصاف نہیں ہوگا تو صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ اس لئے الطاف حسین کے ان دونوں خطبات کو ان کے حقیقی تناظر اور سیاق و سباق کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں بھی اس قسم کے مباحث اخبارات میں ہوتے رہے ہیں لیکن متعدد بار ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے اس موٴقف کو واضح کیا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان زندہ حقیقتیں ہیں۔ میں ایک پاکستانی ہوں، میرامرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے لیکن نظریہٴ پاکستان ، اس کا نظام، اس کے قائدین کا تصور یہ ایک بحث طلب امر ہے جس پر بحث و مباحثہ کیاجاسکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر کسی کو غدار اور وفادار قرار نہ دیاجائے اور پاکستان کا موجودہ انتخابی مینڈیٹ پاکستان کی لسانی تفریق کو گہرا کررہا ہے۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے بڑے صوبے سے بھاری مینڈیٹ لے کر ملک پر حکومت کریں گے تو وہ اس قسم کے فیصلے کریں کہ ملک کی تمام نسلی و لسانی اکائیاں قومی وحدت کا حصہ رہیں۔ الیکشن ہو جانا کامیابی ضرور ہے لیکن اس مینڈیٹ کی بنیاد پر ملک کی تمام وفاقی اکائیوں کو ساتھ لے کر چلنا انتہائی مشکل امر ہوگا جبکہ بلوچستان کے بڑے حصے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ اور کراچی میں بھی محرومیاں موجود رہی ہیں۔
کراچی کے تشدد نے بھی کراچی کے شہریوں کو متاثر کیا ہے۔اس کا ایسا پائیدار حل تلاش کیاجائے جس کی بنیاد یہاں کے مینڈیٹ کے مطابق ہو اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کرچلنے میں ہو۔ ہدف تنقید بنانا آسان ہے لیکن حقائق کو سمجھنا اور سیاق و سباق کو سمجھ کر آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مضامین کے حاشیے اس طرح ترتیب دیئے جاتے جن میں اس بات کی وضاحت ہوتی کہ اگر الطاف حسین نے خاکم بدہن علیحدگی کی بات کی ہے تو وہ اس حد تک کیوں گئے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے قلم کار اور تجزیہ نگار پنجاب سے آنے والے مینڈیٹ کو قومی مینڈیٹ قرار دے رہے ہیں ۔ جب ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جا رہا جس پر وہ شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں تو اسے نامناسب رویہ قرار دیا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک نامناسب قرار دینے والوں کا رویہ نامناسب ہے۔ ملک کے ایک سینئر تجزیہ نگار رؤف کلاسرا جو آزادیٴ اظہار کے لئے قربانیاں بھی دے چکے ہیں ، کہتے ہیں کہ پولنگ ختم ہونے کے چار گھنٹے کے اندر ہی میاں نواز شریف نے مستقبل کے وزیراعظم کی حیثیت سے خطاب کر ڈالا جبکہ ابھی بہت سے انتخابی حلقوں میں پولنگ کا وقت بڑھا دیا گیا تھا اور ان کے اس خطاب کو انہوں نے نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے فوری بعد انتخابی نتائج تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ ہم انتخابی نتائج کو بادل نخواستہ تسلیم کریں اور آگے کی جانب دیکھیں اور اسی کے نقطہ نظر کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھنے کی کوشش کریں بصورتِ دیگر غدار اور وفادار قرار دینے کی روش ملک کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
تازہ ترین