• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ انتخابی نتائج خواہ کسی کے طبع نازک پر کتنے ہی گراں کیوں نہ گزرے ہوں، ہر صورت طے شدہ امر مگر یہی ہے کہ زمام اقتدار اب ان جماعتوں سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ان انتخابات کے طفیل جو ان کے ہاتھ آیا ہے۔ نتائج کے اصل و نقل پر ایک سے زائد آراء ہو سکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو نتائج ظہور میں آ چکے ہیں ان میں کوئی ایسی ہمہ گیر تبدیلی ممکن نہیں، جن سے کسی جماعت کی ہیئت و قوت متاثر ہو لہٰذا جمہوری طرز عمل یہی ہے جس کا اظہار اے این پی نے کیا کہ تمام تر تحفظات کے باوجود نتائج تسلیم کر لئے۔ احتجاج آئینی حق سہی لیکن انتخابی عذر داریوں کے حل کا بہترین فورم ٹربیونل یا الیکشن کمیشن ہی ہے۔ ہاں آئندہ انتخابات اور اس سے قبل بلدیاتی انتخابات میں بائیو میٹرک سسٹم کے نفاذ پر زور دیا جائے تاکہ آئندہ کیلئے اس کا سدباب ممکن بنایا جا سکے۔ بصورت دیگر انتخابات کے بعد احتجاج ہوں گے لیکن یہ تمام تر سچائی کے باوجود بے معنی رہیں گے، 1977ء کے انتخابات میں اگرچہ2013ء کے انتخابات سے کچھ زیادہ دھاندلی نہیں ہوئی تھی لیکن ایسی عظیم الشان تحریک برپا ہوئی کہ بھٹو صاحب آخری پہر کے ایک لمحے میں دوبارہ انتخابات پہ راضی ہو گئے لیکن چونکہ اسٹیبلشمنٹ اس تحریک کی پشتیبان تھی لہٰذا مراد برآنے کے فوری بعد اس نے وہی کیا جو مقصود تھا یعنی اس ہنگام کو جواز بنا کر ”میرے عزیز ہم وطنو“ کہہ کر آمر قوم کے سر پر سوار ہو گئے۔ اب چونکہ ایسے آثار نہیں ہیں اس لئے احتجاج پر آمادہ جماعتوں کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ اسی تنخواہ پر گزارا کر لیں۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ان انتخابات کے نتیجے میں وہ ہمہ گیر تبدیلی وقوع پذیر نہ ہو سکی جس کا شور سنتے تھے۔ ہمارے ہاں کی ریت و روایت یہی ہے کہ برسر اقتدار جماعتیں انتخابات ہار جاتی ہیں اس مرتبہ بھی کم و بیش یہی ہونا تھا۔ کہیں کچھ کم ہوا اور کہیں بہت زیادہ لیکن انہونی پھر بھی ہو نہ سکی… میاں نواز شریف کی فتح توقع کے عین مطابق ہے لیکن اکثریت اندازے سے زیادہ ملی۔ اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کی روایتی بلیک میلنگ سے میاں صاحب کو نجات مل جائے گی اور قوم کو ناسور کی طرح لاحق مسائل کے حل کیلئے وہ پُراعتماد طور پر فیصلے کر سکیں گے۔ بھارت سے تعلقات استوار کرنے کیلئے اعتماد کا اظہار اسی واضح اکثریت کا فیض ہے۔جہاں تک سونامی کا معاملہ ہے تو یہ اے این پی کو ڈبونے کے علاوہ کسی اورکا ایک بال تک بیکا نہیں کر سکا۔ پشتو کی ایک حکایت ہے کہ ایک دیہاتی میلہ دیکھنے شہر گیا جہاں اس کی چادر چوری ہو گئی، واپسی پر گاؤں والوں نے پوچھا میلہ کیسا تھا، جواب دیا میلہ ویلہ کیا تھا، بس میری چادر ہتھیانے کے لئے سارا ڈرامہ رچایا گیا تھا!!؟ اب سونامی والے جن کے خلاف نکلے تھے ان سے تو فرینڈلی میچ کھیلیں گے؟“سندھ میں وہی ایک زرداری سب پہ بھاری ہوں گے، ایم کیو ایم نے تو مزید ترقی کر لی، خیبر پختونخوا میں سونامی کا دائرہ صرف اے این پی کی حدود تک محدود رہا، باقی اپنے حصے سے بھی زیادہ بٹور گئے۔ ایسے عالم میں پھر کیا ، قلب و نظرکے کسی نہاں خانے میں یہ سوچ انگڑائی لیتے محسوس نہ ہو گی کہ پشتو حکایت کے مصداق کہیں نہ کہیں اے این پی سے ہاتھ ہو گیا ہے… ! زمانے کے اسلوب و اصول تاہم اس قدر نرالے ہیں کہ اگر ایک پہلوان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دوسرے کے سامنے لاکھڑا کر دیا جائے اور وہ مار کھا لے تو اسے شکست خوردہ ہی کہتے ہیں، شکست کی وجہ نہیں دیکھی جاتی ۔ یہی کچھ اے این پی کے ساتھ ہوا کہ صاف وجوہات کی بجائے ”صفایا “ کا شور عام ہے اور حقائق کے بجائے عجیب عجیب محر کات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اس کا اظہار گزشتہ روز مختلف اللسان دوستوں کی ایک محفل میں ہوا۔ اے این پی کے ایک دوست سے غیر پختون دوست نے کہا کہ ”پختون بڑے ہمدرد ہوتے ہیں،اس لئے عمران خان کے سر پر چوٹ آنے کے بعد پختونوں نے انہیں اپنے سر پر بٹھا لیا ، اے این پی کے دوست نے جواب دیا، ہاں یہ درست ہے لیکن نہ جانے کیوں ! بشیر احمد بلور ،میاں افتخار حسین کے اکلوتے صاحبزادے، صادق خٹک اور ان کے چار سالہ معصوم صاحبزادے سمیت ان 700اے این پی کے عہدیداروں و کارکنوں کا خون پختونوں میں ہمدردی کا وہ جذبہ اور تڑپ پیدا نہ کر سکا جو محض عمران خان کے گرنے کے باعث پیدا ہوا !!؟انتخابی معرکے کے بعد جشن و ماتم وقتی اظہاریئے ہیں۔ بعد ازاں قوم کی عقابی نظریں بلا امتیاز سیاسی وابستگی حکمرانوں پر مرکوز ہو جاتی ہیں اور وہ ان کے اعمال کو تولنے لگتے ہیں لیکن جو گلے شکوے اے این پی کے کارکنوں کو ہیں اگر دیگر جماعتوں کی طرح اس جماعت کو آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے دیا جاتا تو اگر درحقیقت اس کی کارکردگی ویسی ہی خراب ہوتی جیسا تاثر تھا، تو یہ خود بخود عوام کی نظروں میں گر جاتی لیکن فائدہ یہ ہوتا کہ یہ جماعت اس طرح کے کسی اخلاقی جواز کہ اسے مقابلہ کرنے ہی نہیں دیا گیا سے محروم ہو جاتی۔
راقم اے این پی کی حکومت و تنظیمی کارکردگی اور بعض وزیروں اور مشیروں کے طرز عمل سے متعلق بعض شکایات کو حقیقت سے قریب تر پاتا ہے لیکن یہ اس صورت میں زیر بحث لائے جانے کے قابل ہوتے، اگر اے این پی میدان میں کھیلنے کے بعد ہار جاتی لیکن چونکہ اے این پی کے مخالفین کو علی الاعلان واک اوور دے دیا گیا اس لئے ایسی کسی بحث میں عوام کو الجھانا جس سے ان کی رہی سہی توجہ بھی اے این پی کی قربانیوں سے ہٹ کر ثانوی محرکات کی طرف منتقل ہو جائے، ان شہداء کے خون کی بے حرمتی کے مترادف ہو گی جو اس راہ میں جان قربان کر گئے۔ ایک کمزوری یا مجبوری کا قر ض بہر صورت اے این پی کے تھنک ٹینک پر واجب الادا ہے، وہ یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی قربانیاں بھی عوام کو اے این پی کے سنگ کھڑا نہ کر سکیں اور وہ مخالفین کے ڈبے بھرتے رہے !!
مکرر عرض ہے کہ اے این پی کو مقابلہ کرنے ہی نہیں دیا گیا لیکن سوال اس کم فہم کا یہ ہے کہ جو توقعات اے این پی کے قائدین رکھتے تھے کہ تمام تر جبر کے باوجود ووٹر محض ان کی قربانیوں کے طفیل ان کا ساتھ دیں گے، ایسا کیوں نہ ہو سکا !!؟ کیونکہ ووٹ تو بہرصورت مخالفین کو پڑے ہیں۔خواہ ووٹر میڈیا کی مسلسل دو جماعتی مہم کے زیر اثر آ گئے ہوں یا کسی اور وجہ کے سبب لیکن ان تمام اے این پی مخالف عوامل پر بے قصوروں کا خون حاوی کیوں نہ ہو سکا !!؟ بعض دوست اسے ووٹرز کی بے وفائی سے تعبیر کرتے ہیں، میرا استدلال مگر یہ ہے کہ اے این پی شاید ووٹرز کو یہ سمجھا ہی نہ پائی کہ وہ یہ خون کس شوق میں دھرتی پر نچھاور کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ کامیاب ٹھہرے جنہوں نے یہ باور کرایا کہ اے این پی نے جو بویا تھا وہ کاٹ رہی ہے…!!
جہاں تک نئی حکومت کی بات ہے تو تحریک انصاف کے بعض شاداب چہروں کے ساتھ اس میں پرانے چہرے ہی نظر آئیں گے۔خدا کرے کہ عمران خان اس صوبے کو اپنے قول کے مطابق ماڈل صوبہ بنا سکیں۔ ہزارہ صوبہ اور کالا باغ ڈیم جیسے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔ اگرچہ تحریک انصاف اور اپوزیشن کی بڑی جماعتیں ان دونوں ایشوز پر یکساں رائے رکھتی ہیں اور یہ ہزارہ صوبے اور کالا باغ ڈیم کی حامی ہی ہیں لیکن اختیار ملنے کے بعد یہ کیا کرتی ہیں، یہ دیکھنا ہو گا !! خوش قسمتی سے عمران خان نے خلفائے راشدین کے جس نظام کی بات کی تھی اسے روبہ عمل لانے میں اب اس صوبے میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔جے یو آئی سے جماعت اسلامی تک سب کا نعرہ اور آرزو خلفائے راشدین ہی کا نظام تھا ۔ حلف اٹھانے کے فوری بعد اس کا اعلان کیا جاناچاہئے کہ نیک کام میں دیر کرنے سے ہاتھ آئی نیکیاں ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام کیلئے وہ ساعتیں کتنی مبارک ہوں گی جب وزیر اعلیٰ کے بجائے امیر المومنین راتوں کو رعایا کی خبر گیری کیلئے گشت کیا کریں گے، ڈرون گریں گے، نیٹو سپلائی بند ہو گی کرپشن کا گندصاف کرلیا جائے گا،الغرض قیامِ امن،روز گار کی فراہمی، مہنگائی میں کمی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے سمیت وہ تمام وعدے جو انتخابی مہم کے دوران کئے گئے تھے اگر پورے ہو گئے، تو کوئی وجہ نہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا ماڈل صوبہ نہ بن سکے لیکن بقول حضرت صوفی تبسم
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لادوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
تازہ ترین