• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
اگرچہ انڈین کسانوں کی تنظیمیں یوم جمہوریہ کے موقع پر26جنوری کو اپنا احتجاج اور لاکھوں ٹریکٹروں کی ریلی کو پرامن رکھنا چاہتی ہیں مگر اس ریلی کے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں داخل ہونے پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان بڑا پھڈہ بھی ہوسکتا ہےجس کے نتیجے میں اس تحریک میں مزید تیزی آسکتی ہے۔ تاہم کسانوں نے جن میں بھاری اکثریت سکھوں کی ہے، ریلی کی سیکورٹی اور کسی تصادم سے بچنے کے لیے چار ہزار سے زیادہ نوجوان رضاکاروں کی خدمات حاصل کرلی ہیں تاکہ پولیس اور حکومت کی جانب سے ان پر کوئی الزام نہ لگایا جاسکے، مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ الزام مظاہرین پر نہیں لگے گا؟۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے نہ صرف حکومتی مشینری اور خفیہ ایجنسیاں بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کے چہیتے انتہا پسند ہندو بھی سرگرم ہوں گے اور تشدد کا راستہ اختیار کرکے اس بڑی تحریک کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے (ہندو انتہا پسندوں کے ڈر سے) پہلے ہی اپنے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں اور کہہ دیا ہے کہ کسانوں کی ریلی کو دلی میں داخل ہونے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پولیس کرے گی، یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے ابھی کچھ عرصہ قبل بابری مسجد کی شہادت کا فیصلہ ہندو انتہا پسندوں کے حق میں دیا۔اسی سپریم نے کشمیری لیڈر افضل گورو کو بے گناہ تصور کرتے ہوئے بھی صرف اس لیے پھانسی کی سزا دی کہ ساری فضا ان کے خلاف تھی۔ اگر ججز افضل گوروکو رہا کردیتے تو ہوسکتا ہے کہ انتہا پسند ساری سپریم کورٹ کو ہی ملیامیٹ کردیتے۔ اس سپریم کورٹ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے اگست2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے معاملے کو لٹکائے رکھا اور یہ کہہ کر اس کی سماعت میں بہت زیادہ تاخیر کی کہ اس کے پاس دوسرے بڑے اور اہم کیسز ہیں۔اس کا مقصد کشمیریوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنا، مودی سرکار کو ظلم کی انتہا کرنے کی مہلت دینا اور ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنا تھا چنانچہ احتجاجی کسانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی موقع پر معاملہ عدالتوں میں گیا تو وہ اپنی ساری جنگ ہار جائیں گے۔انہیں اس معاملے کو سڑکوں پر ہی حل کرنا ہوگا اور اپنے سارے مطالبات کو منواکر ہی تحریک کو ختم کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں80لاکھ نہتے کشمیریوں کو دبانے اور کچلنے کے زعم میں مبتلا مودی حکومت سکھوں کے مطالبات کو سنجیدگی کے ساتھ لے ہی نہیں رہی، کئی ہفتوں سے انڈین سڑکوں پر دھرنے دینے والوں کی حکومت کو پروا ہے نہ نام نہاد سیکولر ازم کا پرچار کرنے والے زیادہ تعداد میں آگے بڑھے ہیں اور نہ عالمی سطح پر اس تحریک کو وہ پذیرائی ملی ہے جو اس کا حق ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی سفارتی اور اقتصادی دہشت گردی بھی ہے، اس کے سفارت کار اس قدر متحرک ہیں کہ مغربی میڈیا کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیتے ہیں۔ حکومتوں کو یہ کہہ کر چپ کرادیتے ہیں کہ اگر انہوں نے ساتھ نہ دیا تو انہیں انڈیا کی بڑی مارکیٹ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ایسے میں پاکستان، چین، ترکی، ملائیشیا اور بعض دوسرے ممالک انڈیا میں کشمیریوں، انڈین مسلمانوں اور سکھوں پر ہونے والے مظالم پر انڈین چہرہ پوری دنیا میں بے نقاب کرسکتے ہیں تاکہ کم از کم کسانوں کی یہ تحریک اپنے انجام تک پہنچے۔ انڈیا کو بھی یہ معلوم ہے کہ اگر وہ کسانوں کے آگے جھک گیا تو پھر اسے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے سامنے بھی جھکنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ انڈیا میں چلنے والی آزادی کی دوسری تحریکوں میں بھی شدت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت سکھوں، کسانوں کی صرف سیاسی مدد ہی کرسکتی ہے، تاہم پاکستانی میڈیا روزانہ کی بنیاد پر اس تحریک کو اجاگر کرنے میں اپنا حصہہ ڈال رہا ہے۔ پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں مقیم سکھوں کو یقین ہے کہ26جنوری کو یا اس کے بعد مودی سرکار کا غرور ضرور ٹوٹے گا اور انڈیا کے غریبوں کو ان کے حقوق ملیں گے۔
تازہ ترین