• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سیّد اقبال حیدر۔۔۔فرینکفرٹ
جرمنی میں کورونا وائرس کی خطرناک صورت حال کے باعث سخت لاک ڈائون ناگزیر ہے یہ اہم فیصلہ جرمنی کی 16ریاستوں کے سربراہ اور مرکزی کابینہ کے ذمہ داروں نے جرمن چانسلر انجیلامرکل کی سربراہی میں11گھنٹے طویل مشاورت کے بعد کیا جس میںحالیہ لاک ڈائون کی توسیع15 فروری تک کردی گئی اس کے ساتھ ساتھ گروسری ،آپٹیکل شاپس،میڈیکل اسٹورز کے علاوہ تمام کاروباری مراکز بند رکھنے کی موجودہ صورتحال کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔تعمیراتی، بلڈنگ میٹریل کے بڑے اسٹورز کھلے ہونگے مگر عام گاہکوں کی رسائی صرف آن لائن آرڈر،آن ادائیگی کے بعد اس اسٹور کی وسیع پارکنگ میں بنے ایک کائونٹر سے ہوگی۔ بچوں کے اسکول اور کنڈرگارٹن بھی فی الحال 15 فروری تک بند رہیں گے مگر اسکولز میں اساتذہ اور عملہ حاضر ہوکر آن لائن کلاسوں کا اہتمام کرے گا وہ والدین جو اپنی ملازمت کی اہم مجبوری کی وجہ سے بچوں کو گھر نہیں رکھ سکتے ان کے بچے اسکول آ سکتے ہیں،ٹرین بس اور شاپنگ سینٹرز میں کپڑے کے اور عام سستے ماسک ممنوع ہوںگے ان کے بجائے FF P 2 حساس ماسک پہننا ضروی ہوںگے۔جرمنی کے صوبے بائیرن نے ایک ہفتہ وارننگ اوراس کے بعد جرمانوں کا بھی اعلان کیا ہے دفاترز اور کمپنیوںکے وہ ملازمین جو پچھلے عرصے سے ’’ہوم آفس‘‘ خدمات سرانجام دے رہے تھے بدستور گھروں سے آن لائن کام کریں گے۔اگر ان کے مالکان انھیں آفس آنے پر مجبور کریں تو انھیں اس کے لئے ضروری عذر ثابت کرنا ہو گا،ورنہ وہ ملازمیں اپنے گھروں سے کام کریں گےاور آفس آنے کی صورت میں ان کی سلامتی کے لئے مالکان کو خاطر خواہ حفاظتی انتظامات کرنا ہوں گے ۔ گذشتہ روز چانسلر مس انجیلامرکل کی سربراہی میں ہونے والے11گھنٹے کے طویل اجلاس میں’’ کورونا وبا‘‘ کی روک تھام،ملک کی معاشی صورت حال اور حفظان صحت کے ماہرین نے شریک ہو کر آگاہی دی جس کی روشنی میں یہ حکومتی فیصلے کئے گئے۔اجلاس میں بچوں کے اسکولز بند رکھنے پر ریاستوں کے نمائیندوں میں اختلاف رائے پر طویل بحث ہوئی۔اس موقع پر چانسلر انجیلا مرکل کو سخت لب و لہجہ بھی اختیار کرنا پڑا۔مس میرکل کا کہنا تھا کہ کورونا وبا سے انسانی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوںگے ورنہ ہمیں بھی امریکہ اور انگلینڈ جیسی پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا ہوگا۔یاد رہے کہ پچھلے برس جب انگلینڈ،فرانس،اٹلی میں کرونا نے قیامت صغرایٰ کا منظر پیش کیا تھا جرمنی اپنے مضبوط نظام ہیلتھ کی وجہ سئ محفوظ رہا اور جرمنوں نے اٹلی اور فرانس سے مریض لا کر ان کا علاج کیامگرروناکی موجودہ ’’خطرناک لہر‘‘ نے جرمن حکومت کو بھی پریشان کر دیا ہے، وائرس سے روزانہ ہونے والے متاثرین اوراموات کی شرح حیرت انگیز طور پربڑھ گئی ہے،آج پچھلے 24 گھنٹوں میںنئے کرونا متاثرین کی تعدا د15.974 اورمرنے والوں میں1147بدنصیب افراد کا اضافہ ہوا۔ریاستی سختیوں کے باوجود عوام کی لاپرواہی اور عدم سنجیدگی کی بھی مثالیں سامنے آ رہی ہیں ،جرمنی میں پچھلے ہفتہ شدید برفباری ہوئی اور ویک اینڈ پر پہاڑی علاقوں میں لوگ بچوں کے ساتھ ماسک اور احتیاطی تدابیر سے بے نیاز’’آئس اسکیٹنگ‘‘ کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں نکل پڑے جس کے نتائج آ ئندہ دنوں میں سامنے آ سکتے ہیں۔جرمنی میں پاکستانی کمیونٹی بھی کورنا وبا کے ہاتھوں پریشان کن صورت حال سے دوچار ہے۔فرینکفرٹ میں مقیم PPP کے مرکزی رہنما اور مذہبی تنظیم کے صدر پرویز اختر زیدی کے ’’ کورونا ‘‘ کے سبب انتقال نے جرمنی میں مقیم پاکستانیوں کو سوگوار کر دیا ہے گو جرمنی کے بڑے شہروں میں کورونا وبا کی’’ ویکسین لگانے ‘‘کے سینٹرز قائم کر دیئے گئے ہیں اور ان میں تیزی سے کام ہو رہا ہے مگر پھر بھی صورت حال بہتر ہونے تک ہمیں حکومتی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔اس وبا سے بچنے کا واحد حل اپنے سوشل رابطوں او ر غیر ضروری طور پرگھر سے نکلنے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔
تازہ ترین