• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک زمانہ تھا کہ بھاٹی لوہاری زیادہ تر احتجاجی اجتماعات کا مرکز ہوتا تھا۔ تحریک مزدوروں کی ہو یا مذہبی وہ یہیں دھرنے دیتی تھیں ۔ بھٹو کے پروانے جیالوں نے بھی یہیں خود سوزی کی تحریک چلائی تھی۔ گلبرگ یا چھاؤنی میں تو اس قسم کے عوامی اظہار کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس زمانے میں احتجاج کرنے والے زیادہ مرد ہی ہوتے تھے جو دھوتیوں اور شلواروں میں ملبوس ہوتے تھے، پتلونیں بہت کم نظر آتی تھیں اور کوٹ ٹائی تو ناپید ہوتی تھی۔ یہ مظاہرین پیدل ، بسوں، رکشوں اور بائیسکلوں کے ذریعے احتجاجی مراکز پہنچتے تھے لیکن اب منظر بالکل تبدیل ہو گیا ہے، اب مظاہرے ڈیفنس کے پوش ایریا میں ہو رہے ہیں جہاں مرد و زن مغربی لباس میں اپنی کاروں پر بیٹھ کر آتے ہیں۔ پرانے اور آج کے احتجاجیوں میں واقعی زمین آسمان کا فرق ہے۔یہ بہت دلچسپ تاریخی تبدیلی ہے جس کا بغور جائزہ لینا چاہئے۔
پچھلے چند مہینوں میں عمران خان نے اپنی پارٹی تحریک انصاف کیلئے خوشحال طبقات سے جو جیالے پیدا کئے ہیں ان کی مثال پاکستان کی تحریک میں نہیں ملتی۔ ان کا مثبت ترین پہلو یہ ہے کہ یہ سب پاکستان کو ایک خوشحال اور پُرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جیالے پاکستان کے خوشحال ترین علاقوں (ڈیفنس) سے لے کر تارکین وطن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں انتہائی سیکولر خیالات کے حامل بھی ہیں اور طالبانی اسلام کے پیروکار بھی لیکن یہ سب عمران خان کے معتقد ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا عمران خان ہے، کسی کے لئے یہ خان جدید انسان ہے تو کوئی دوسرا اس کے پیٹ میں گز بھر لمبی داڑھی پر نثار ہے۔ ان کی اکثریت عمران خان پر تنقید کرنے والوں کو انسان تسلیم نہیں کرتی اور یہ اپنے عقیدے میں خود پرستی کی حد تک نرگسیت کا شکار ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس طبقے میں یہ جیالا کلچر کس وجہ سے پیدا ہوا ہے؟ بظاہر اس طبقے کو زندگی کی ہر سہولت اور تعیش میسر ہے، پھر یہ کئی کئی روز کے دھرنے کیوں دے رہے ہیں؟
1970ء کی دہائی میں جیالے تو پیپلزپارٹی نے پیدا کئے تھے۔ ان میں زیادہ تر تعداد بیروزگار نوجوانوں اور غربت کی لکیر سے نیچے والے لوگوں کی تھی۔ ان کے لئے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ بہت دلکش تھا کیونکہ یہ ان کی زندگیوں کا بنیادی مسئلہ تھا۔ اسی لئے یہ ذوالفقار علی بھٹو پر تن من دھن نثار کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے ان میں سے کچھ نے بھٹو کو بچانے کے لئے خود سوزی تک کر کے احتجاج کیا۔ ان میں سے ہزاروں نے ضیاء الحق کے کوڑے خوشی خوشی برداشت کئے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی بہت سی تعداد تو ستّر کی دہائی میں تلاش روزگار میں ادھر ادھر بھٹک گئی لیکن پھر بھی بہت بڑی تعداد اپنے بنیادی عقیدے پر ڈٹی رہی۔ انہی جیالوں نے بے نظیر بھٹو کے استقبالوں کو تاریخی بنایا اور یہی 1988ء کے الیکشنوں میں ان کی بھاری جیت کا سبب بنے۔
آہستہ آہستہ جب پیپلز پارٹی چائے اور پیسٹریاں کھانے والوں کا گروہ بنتا گیا تو بہت سے جیالے بھی کھا کھا کر کافی تنومند ہوگئے۔ جن کے ہاتھ کچھ نہ لگا وہ مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ ویسے بھی1977ء کے الیکشنوں سے لے کر2007ء کے الیکشنوں تک پیپلزپارٹی کے الیکشن امیدوار روایتی سیاست ہی تھے اسی لئے پچھلے دو تین الیکشنوں میں پیپلزپارٹی کے جیالوں کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔2013ء کے الیکشنوں میں ان جیالوں کی نسل کے خاتمے پر مہر ثبت ہو گئی۔ دراصل ستّر کی دہائی کی نسل کو چالیس سال میں ویسے بھی ختم ہو ہی جانا تھا۔
مسلم لیگ (ن) جس زمانے میں ابھر کر سامنے آئی تب روٹی کپڑا مکان کے نعرے کی جگہ اچھی روٹی، اچھے کپڑے اور اعلی مکان نے لے لی تھی۔ مسلم لیگ (ن) تاجر، صنعتی اور کاروباری طبقے کی پارٹی کی نمائندہ تھی۔ اس لئے اس میں پیپلز پارٹی جیسے جیالے پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے بھی جیالے تھے لیکن وہ تن من کی جگہ دھن سے کام چلانے کے عادی تھے۔ وہ کاروباری لوگ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی طرح خود سوزی تو کیا وہ تو دو دن دکانیں بھی بند نہیں کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف کودتا کے بعد ان کے جیل اور جلا وطنی کے زمانے میں جاوید ہاشمی کے علاوہ شاید کوئی جیل نہیں گیا۔
جاوید ہاشمی بھی ستّر کی دہائی کے دائیں بازو کے جیالے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی کے جیل کے دوران ان کے رقیب پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے جیالے ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور ان کی ہر ممکن مدد کرنے کے لئے تیار رہے۔ غرضیکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس جیالے کم اور اس کے مداح زیادہ تھے جو اس کی معاشی پالیسیوں کو کاروباری ماحول کے لئے بہتر سمجھتے تھے اور اس کے معاشی ترقیاتی پروگراموں کو سراہتے تھے۔ بہرحال وہ نواز شریف کے ایٹم بم کے تجربے کا تمغہ سینے پر لگائے ان کی وفاداری کا دم بھرتے رہے۔ ان میں جیالے قسم کے لوگ بھی اپنے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے سے کافی احتراز کرتے تھے۔
ستّر کی دہائی سے ملک میں نئی خوشحالی آنا شروع ہو چکی تھی۔ ہزاروں مزدور اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک پاکستانی ساری دنیا میں پھیلنے لگے اور ان کے بھیجے ہوئے سرمائے سے کچے مکانوں کی جگہ سیمنٹ پوش گھر کھڑے ہونے لگے۔ اسی عرصے میں تاریخ کا سب سے بڑا معاشی انقلاب برپا ہوا جس میں ہل کی جگہ ٹریکٹر نے لے لی۔ مشینی دور کے ساتھ نیا نیم صنعتی سماج وجود میں آنے لگا اور معاشرے میں نئی دولت کے انبار لگنے لگے۔ بہت بڑا نیا امیر طبقہ پیدا ہونا شروع ہو گیا لیکن ریاست اپنی قدیم ڈگر پر چلنے کی کوشش میں تباہ ہونے لگی۔ پرانے ادارے تباہی کے دہانے پر آگئے۔نیا امیر طبقہ اس تباہی سے مستفیض بھی ہوا اور اس کو نظر انداز بھی کرتا رہا۔ اس طبقے کا رویہ یہ تھا کہ اگر سڑک خراب ہے تو بڑی گاڑی لے لو، تعلیم اور صحت کا نظام خراب ہے تو پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور اسپتال بنا لو۔ عوامی اداروں کی تعمیر اس طبقے کے ایجنڈے پر نہیں تھی۔یہ صورتحال آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے ساتھ تبدیل ہوئی اور اصلاح پسندوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آنے لگا۔
ڈیفنس اور پوش علاقوں میں پیدا ہونے والے نئے امیر طبقے کو بھی ایک سطح پر احساس ہونے لگا کہ اگر معاشرہ طوائف الملوکی کا شکار ہو، ہر طرف افراتفری ہو، چوریاں ڈاکے اور دہشت گردی کا دور دورہ ہو تو تمام سہولتوں کے باوجود ان کا معیار زندگی اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔ وہ بڑی گاڑی میں مہنگے اسکول میں بچے کو بھیج تو سکتے ہیں لیکن اس کو اغوا ہونے سے نہیں بچا سکتے۔ وہ بیرون ملک تفریح کیلئے تو جا سکتے ہیں لیکن سبز رنگ کا پاسپورٹ ان کی تذلیل کا باعث بن جاتا ہے لہٰذا اس طبقے میں ریاست اور اس کے اداروں کی اصلاح کا جذبہ پیدا ہوا جس کا اظہار عمران خان کی تحریک انصاف کے حوالے سے سامنے آیا۔
اس طبقے کا ردعمل شدید تھا اس لئے اس میں سے نئی طرح کے ہزاروں لاکھوں جیالے پیدا ہونا شروع ہوئے۔ اگرچہ ان نئے جیالوں کے رویّے کافی حد تک نرگسیت کا شکار تھے (ہیں) لیکن بہرحال ان کا مقصد معاشرے کا سدھار ہے۔ ان میں خوشحال طبقے کی انفرادیت پسندی اور غرور کا عنصر بھی ہے لیکن ان کا ایجنڈا غلط نہیں ہے۔ جیالوں کی یہ نسل کچھ دہائیوں تک کسی نہ کسی شکل میں اپنا اظہار کرتی رہے گی۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جیالا پن کا یہ مظہر صرف عمران خان کی ذات تک محدود ہے تو وہ غلط ہیں۔ اس کے الٹ یہ رویہ کسی نہ کسی شکل میں کافی دیر زندہ رہے گا ویسے ہی جیسے پیپلز پارٹی کے جیالے کئی دہائیوں تک میدان سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
تازہ ترین