کراچی سے میری ایک محترمہ بہن نے جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، میرے نام ایک خط لکھا تھا، میں نے شائستہ لب و لہجے کا حامل یہ خط، اپنے گزشتہ کالم میں شائع کیا اور لکھا کہ اس حوالے سے اپنی معروضات میں اپنے آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔ سو یہ گزارشات پیش خدمت ہیں۔
میں محترمہ کا بے حد ممنون ہوں کہ وہ ماضی میں میری بہت بڑی فین رہی ہیں۔ ان کے بقول وہ میری تحریریں 35 سال سے پڑھتی چلی آ رہی تھیں اور ان تحریروں سے ان کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ جب میں نوائے وقت سے جنگ میں آیا تو انہوں نے نوائے وقت کی بجائے جنگ خریدنا شروع کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک دفعہ اپنے بھائی کے پاس لاہور آئیں تو وہ بطور خاص میرا گھر دیکھنے آئیں کہ اس گھر میں ان کا فیورٹ کالم نگار رہتا تھا، مگر ان کا کہنا تھا کہ جب سے میں نے تحریک انصاف کے حوالے سے کالم لکھنے شروع کئے ہیں۔ اس وقت سے انہوں نے میرا کالم پڑھنا بند کر دیا ہے بلکہ جس صفحے پر انہیں میرا کالم نظر آتا ہے وہ اسی وقت وہ صفحہ پلٹ دیتی ہیں۔
میں نے اپنی محترمہ بہن کی یہ سب باتیں اس لئے دہرائی ہیں کہ تحریک انصاف سے میرے اختلاف کی ایک وجہ اس کے کارکنوں اور اس کی قیادت کا یہی پرتشدد رویہ ہے، وہ اختلافی بات برداشت ہی نہیں کر سکتے، جب ان سے کوئی اختلاف کرتا ہے، خواہ وہ شیریں مزاری، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، جاوید چودھری، طلعت حسین، رحیم اللہ یوسف زئی اور سلیم صافی سمیت کوئی بھی ہو، وہ ان پر کیسی کیسی تہمتیں لگاتے ہیں اور جھوٹ کے پلندے ان سے منسوب کرتے ہیں، میری بہن یقینا ایک خاندان سے تعلق رکھتی ہوں گی، انہوں نے گالیاں تو نہیں دیں مگر اختلاف ان سے بھی برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے اپنے پسندیدہ کالم نگار سے منہ موڑ لیا، ورنہ میرے ”مہربانوں“ نے تو مجھے قتل کی دھمکیاں بھی دیں اور ماں بہن کی گندی گالیوں سے میرا مسیج بکس بھر دیا۔ دراصل تحریک انصاف کے قائد عمران خان صاحب اپنے معترفین کیلئے جو ز بان اور لہجہ اختیار کرتے ہیں، ان کے پیروکار ”حسب توفیق“ اس میں اضافہ ہی کرتے چلے جاتے ہیں، کیا یہ وہ تبدیلی ہے جس کی نوید قوم کو سنائی جاتی رہی ہے؟ یہ فاشزم ہے جو پہلے صرف کراچی تک محدود تھا اب سارا پاکستان اس کی لپیٹ میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ ابھی ابتداء ہے، ابھی اقتدار ہاتھ نہیں آیا اور یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اللہ جانے اقتدار ملنے کے بعد کیا ہو گا؟
میری مراسلہ نگار بہن نے میرے نام اپنے خط میں گلہ کیا ہے کہ میں نے پوشڈ علاقوں میں رہنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تذلیل کی ہے اور جو تذلیل کی وہ غالباً میرا یہ جملہ ہے کہ الیکشن کے روز یہ لوگ کالی عینکیں لگائے اور منزل واٹر کی بوتلیں ہاتھوں میں لئے اور ”ویری ہاٹ“ کہتے ہوئے ووٹروں کی قطار میں کھڑے تھے، اس کے علاوہ میرے قلم سے اگر کوئی گستاخانہ جملہ ادا ہوا ہو تو انٹرنیٹ پر میرے گزشتہ سارے کالم موجود ہیں، ایک بٹن دبانے سے وہ سامنے آ جائیں گے اور یوں تحقیق کیلئے کسی لائبریری کی فائلیں ”پھولنے“ کی زحمت بھی برداشت نہیں کرنا پڑے گی۔ براہ کرم مجھے ضرور بتائیں اگر میں نے اپنے خاندان کی اخلاقی تربیت کے منافی کوئی جملہ لکھا ہو، مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ پوشڈ علاقے کے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب نوجوانوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالا اور ان کی نظروں میں ان کے ووٹ کی اتنی زیادہ قدر و قیمت ہے کہ وہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ ان کے خلاف کروڑوں ”کیڑوں مکوڑوں“ نے جو ووٹ ڈالا ہے، اسے ان کے ڈالے ہوئے ووٹ پر فوقیت دی جا سکتی ہے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ دھاندلی کا شور صرف انہی حلقوں میں مچایا جا رہا ہے جہاں یہ مراعات یافتہ طبقہ گندے مندے عوام سے الگ تھلگ رہتا ہے۔ دراصل اس معاملے میں زیادتی شفقت محمود نے کی ہے۔ خود پوشڈ علاقے سے کھڑے ہوئے اور جیت گئے، خاں صاحب کو اچھرے اور اس طرح کے غریب غرباء کے علاقے کی اللہ جانے کیسی دلی خوش کن تصویر دکھائی کہ وہ وہاں سے الیکشن میں کھڑے ہو گئے اور ہار گئے۔ اس کا غصہ جس نے اتارنا ہے وہ شفقت محمود پر اتارے، اس کا الزام دوسروں کو کیوں دیا جا رہا ہے؟
کالم کے طویل ہونے کے خدشے سے میں اپنی بات اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ محترمہ نے اپنے خط میں بین السطور یہ بات بھی کہی ہے کہ میں عمران خان کے اس لئے ”خلاف“ ہوں کہ نواز شریف کے دور میں مجھے سفیر بنایا گیا تھا۔ ان کے خط میں کہی گئی یہ بات خالصتاً تحریک انصاف کی نفسیات کی عکاسی ہے۔ میرا روئے سخن مراسلہ نگار کی طرف نہیں، ان بے ضمیر لوگوں کی طرف ہے، جو سوچ ہی نہیں سکتے کہ کوئی شخص باضمیر بھی ہو سکتا ہے۔ میری نظر میں اصولوں کے مقابلے میں سفارت کی جو حیثیت ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجھے یہ اشارہ ملا تھا کہ اگر میں اس منصب پرفائز رہنا چاہوں تو رہ سکتا ہوں، لیکن میں استعفیٰ دے کر پاکستان آ گیا اور میرا پہلا اور آخری کالم بھی جنرل پرویز مشرف کی آمریت کیخلاف اس دور میں شائع ہوا جب ملک میں ہر طرف سناٹا تھا اور پوشڈ علاقوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ جنرل کی راہوں میں آنکھیں بچھائے ہوئے تھا اور عمران خان جنرل کی حمایت کے لئے کمر کس رہے تھے، میری نظروں میں سفارت کامرتبہ اگر اصولوں کے مرتبے سے زیادہ ہوتا تو اس کا حصول جنرل کی حکومت کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ممکن تھا، صرف ”ملک و قوم کے وسیع تر مفاد“ والا جملہ ہی تو استعمال میں لانا تھا اور میں نے سفارت کا منصب جس صورتحال میں قبول کیا تھا وہ الگ کہانی ہے جس کی ساری تفصیل میں اس زمانے میں اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں جس زمانے میں محترمہ بے کالم بہت شوق سے پڑھتی تھیں، میرے کالم میں اس حوالے سے مجید نظامی صاحب، مجیب الرحمن شامی صاحب اور تسنیم نورانی صاحب کی گواہیاں بھی پیش کی گئی تھیں، ان میں سے موخرالذکر یعنی تسنیم نورانی تحریک انصاف کے اہم رکن ہیں اور اس کے ”باوجود“ میری اور ان کی دیرینہ دوستی میں سیاسی اختلاف کا خلیج حائل نہیں۔
میری بہن! آپ بدگمانی سے کام نہ لیں اور یہی بات اپنے بچوں سے بھی کہیں اور ہاں ایک بار پھر میرے کالم پڑھنا شروع کر دیں۔ مجھے اپنے قارئین سے محبت ہے، خواہ ان کا نقطہ نظر مجھ سے مختلف ہی کیوں نہ ہو، ایک فرمائش مجھے بھی آپ سے کرنا ہے براہ کرم ایک خطاان کالم نگاروں کے نام بھی لکھیں جو اپنے ہر کالم میں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے خلاف زہر افشانی کرتے اور انہیں گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ آپ ان کے کالم پر نظر پڑتے ہی صفحہ پلٹ دیتی ہیں کیونکہ آپ ان لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں جو انہیں ووٹ دیتے ہیں، صرف ایک بات اور آج کل ہمارے ”انصاف پسند“ دوست فیس بک پر پٹھانوں کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ وجہ یہ کہ کے پی کے میں تحریک کو زیادہ نشستیں ملی ہیں۔
پٹھان پاکستانی قوم کا قابل فخر حصہ اور سرمایہ ہیں، لیکن بلوچستان میں مقیم پٹھانوں کے بارے میں بھی تو کلمہ خیر کہیں اور ان کا یہ قصور معاف کر دیں کہ انہوں نے عمران خان صاحب کو ووٹ نہیں دیئے۔ میں جانتا ہوں میری بہن بہت سلجھی ہوئی خاتون ہیں، فیس بک پر کسی قومیت کا قصیدہ اور کسی کی ہجو انہوں نے نہیں کہی میں تو صرف انہیں سفارش کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں اور اس کے ساتھ ان بے شمار تضادات میں سے ایک تضاد کی نشاندہی کر رہا ہوں جو تحریک میں پائے جاتے ہیں۔ مجھے ایک پیشگی ”معافی نامہ“ بھی اس کالم میں پیش کرنا ہے اور وہ یہ کہ مراعات یافتہ طبقے کے حوالے سے اگر کوئی گستاخانہ جملہ میرے قلم سے سرزد ہو گیا ہو تو براہ کرم عنایت خسروانہ سے کام لیتے ہوئے مجھے اور میرے بچوں کو معاف کر دیں اللہ آپ کا اقبال مزید بلند کرے۔