• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کالم سے قبل 24/اپریل اور یکم مئی کو میرے دو کالم ”ترکی، پاکستان اور سیکولرازم“ کے عنوان سے شائع ہو چکے تھے اس لئے اس موضوع سے متعلق مزید قلم اٹھانے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن پاکستان سے بڑی تعداد میں موصول ہونے والی ای میلز اور سترہ مئی کے محترم ڈاکٹر صفدرمحمود کے کالم کی وجہ سے ایک بار پھر اس موضوع پر چند ایک وضاحتیں پیش کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔
پاکستان سے موصول شدہ زیادہ تر ای میلز میں ترکی کی برسراقتدار سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو سیکولر جماعت کہنے پر غصے کا اظہارکرتے ہوئے اسے پاکستان کی دو مذہبی اور سیاسی جماعتوں، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ہی کی طرز کی سسٹر جماعت کہنے پر اصرار کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کردوں کہ میں ترکی کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا کوئی ترجمان نہیں ہوں اس لئے میں نے اپنے کالموں میں اس جماعت کے بارے میں جو ذکر کیا ہے وہ اپنی عقل و منطق اور اس پارٹی کے منشور کو پڑھتے ہوئے کیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ ترکی کے آئین کی رو سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ایک سیکولر جماعت ہے البتہ اس کے سیکولر نظرئیے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سیکولر نظرئیے میں بڑا واضح فرق پایا جاتا ہے۔ یہ جماعت سیکولرازم پر اس کی صحیح روح کے مطابق یعنی مذہب سے ناتا توڑے بغیر مذہبی معاملات میں مکمل آزادی اور غیرجانبداری پر یقین رکھتی ہے۔ ( اس جماعت نے اپنے اسی سیکولر نظریئے کے تحت عوام کو عبادت کی آزادی دلوائی اور لڑکیوں کو ہیڈاسکارف پہن کر یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کا حق دلوایا) جبکہ ترکی کی دیگر سیکولرجماعتوں نے اپنے دور اقتدار کے دوران سیکولر ازم کا نام استعمال کرتے ہوئے مذہبی حلقوں کوکچل کر رکھ دیا تھا۔ جہاں تک جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا پاکستان کی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سے گہرے روابط کا تعلق ہے اس کیلئے عرض ہے کہ ترکی اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ عوام کے درمیان بھی بڑے گہرے مراسم موجود ہیں اور ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پاکستانیوں کو جو عزت و احترام ملتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ایسا عزت و احترام ملتا ہو۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا نہ صرف جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ بلکہ تمام ہی سیاسی جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پیش پیش ہیں کے ساتھ بڑے اچھے اور گہرے روابط موجود ہیں یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ (ن ) نے ان تعلقات کو دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادیات کو فروغ دینے کیلئے استعمال کیا جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنی تمام تر توجہ سیر و سیاحت اور ترکی کے دوروں پر ہی مرکوز رکھی اور تجارت اور اقتصادیات کا پہلو ان کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اب نواز شریف کے برسراقتدار آنے سے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے مزید مضبوط ہونے کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ وزیراعظم ایردوان شہباز شریف کی محنت اور لگن کے بھی بڑے قائل ہیں۔
اب میں اپنے دور کے عظیم اسکالر اور شخصیت ڈاکٹر صفدر محمود جن کے کالم کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے سے عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے یکم مئی کے ”ترکی، پاکستان اور سیکولرازم“کے زیرعنوان کالم کا مقصد آپ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا ہرگز نہیں تھا اور نہ ہی ایسی گستاخی کرسکتا ہوں تاہم اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ اللہ تمام مسلمان بھائیوں کو آخری وقت میں کلمہ شہادت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کسی پرکلمہ پڑھتے ہوئے کپکپی طاری نہ کرے۔ ترکی زبان میں ایک محاورہ ہے ”پیسہ اور ایمان کس کے پاس ہے اس کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا“۔ مذہبِ اسلام سے کسی کو کوئی خوف محسوس نہیں کرنا چاہئے لیکن یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ اسلام کو اس کی صحیح روح کے مطابق پیش کریں۔ اگر دیگر اسلامی ممالک اور سیکولر ترکی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ترکی عالم اسلام کا واحد ملک دکھائی دیتا ہے جہاں پر اس کے باشندوں کو اپنے اپنے مذہب اور فرقے پر عملدرآمد کرنے کی پوری پوری آزادی ہے اور عوام بڑے خوش و خرم ہیں۔ دنیا بھر میں ترک مسلمانوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے کی وجہ بھی یہی ہے۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ترکی ایک سیکولر ملک ہونے کے باوجود کیونکر اسلام کا نام روشن کرتے ہوئے دنیا کے چند ایک عظیم ترین ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ترکی میں موجودہ دور میں(میرا ذاتی خیال ہے کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے دور سے قبل کبھی بھی سیکولر ازم پرصحیح طریقے سے عملدرآمد ہی نہیں کیا گیا ہے) سیکولرازم پر اس کی روح کے عین مطابق عملدرآمدکرنا ہے جبکہ ہمارے ہاں سیکولرازم کو مذہب اسلام کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود سے قومی ترانے کے بارے میں عرض ہے کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں جگن ناتھ آزاد کے ملی ترانے کو پیش کر دیا تھا اور آپ نے بھی اسے چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی رات کر پیش کئے جانے کو قبول کر لیا ہے۔ جہاں تک ریڈیو پاکستان کی لاگ بک کا تعلق ہے وہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ ریڈیو پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟ میں یہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ریڈیو پاکستان کی لاگ بک میں اندراج متن کو حذف کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ میں خود بھی ریڈیو پاکستان میں براڈ کاسٹر کے طور پر کام کرچکا ہوں۔ اس لئے وہاں کی صورتحال کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ پاکستان کے نام سے متعلق میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح جن پر ان کے تمام ساتھیوں اور پاکستان کے عوام کا مکمل اعتماد تھا نے پاکستان کا نام ”جمہوریہ پاکستان“ ہی پر کیوں اکتفا کیا؟ کیا وہ اس وقت اس نام کے ساتھ ”اسلام“ کا لفظ نہیں لگا سکتے تھے؟ کیا ان کو اتنا اختیار حاصل نہ تھا؟ میرے خیال میں وہ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا کیونکہ وہ تمام اقلیتوں کو بھی وہی حقوق دینا چاہتے تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ انہوں نے گیارہ ستمبر 1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ”اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوشیوں سے بھرپور اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہماری پوری توجہ عوام الناس اور غریبوں کی بہبود پر ہونی چاہئے۔ اگر آپ ماضی کو فراموش کرتے ہوئے باہمی تعاون سے کام کریں تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ جو کچھ ہوا ہے اسے بھول کر اگر آپ ایک دوسرے کے ساتھ اس جذبے سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر فرد چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، چاہے ماضی میں اس کے تعلقات آپ سے کیسے ہی کیوں نہ رہے ہوں ، چاہے اس کا رنگ ، ذات پات اور عقیدہ کچھ بھی ہو وہ اپنے تمام حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ اوّل و آخر اس ملک کا شہری ہے تو آپ ترقی کی انتہاؤں کو چھو سکتے ہیں۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ”ہمیں اسی جذبے کے تحت کام کرنا چاہئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثریتی اور اقلیتی فرقوں یعنی ہندو مسلم کی تفریق اور مسلمانوں کے اندر پٹھان، پنجابی شعیہ، سنی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن، ویش، کھتری اور بنگالی، مدراسی وغیرہ کے باہمی اختلافات ختم ہوجائیں گے“۔ قائداعظم کے فرمان کے اس جملے سے کہ مملکت پاکستان سب کو بلاامتیاز لسان، مذہب اور نسل کے تمام حقوق عطا کرتا ہے سے سیکولرازم ہی کی واضح عکاسی ہو جاتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں”آپ اس ریاستِ پاکستان میں آزاد ہیں، چاہیں تو آپ مندر جائیں، مسجد جائیں یا کسی اور عبادت گاہ جائیں۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی ذات اور کسی بھی عقیدے سے ہو ، امور مملکت کی راہ میں ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ان الفاظ سے بڑھ کر سیکولرازم کی اور کیا تعریف ہوسکتی ہے؟
مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کے پاس علامہ محمد اقبال کی انگریزی کتاب ”ری کنسٹرکشن“ موجود ہے کیونکہ آپ نے یہ کتاب پاکستان پر اسلام کا ڈھونگ رچانے والے جنرل محمد ضیاء الحق کے دور سے قبل حاصل کی تھی جبکہ ان کے دور میں اس قسم کی تمام کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تازہ ترین