• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انتخابی نتائج منظر عام پر آچکے ہیں اور توقع کے عین مطابق میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ ن پنجاب اور وفاق میں سادہ اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے کی اہل ہوچکی ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھ میں، تحریک انصاف خیبر پختوانخوا میں اور مسلم لیگ ن دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر بلوچستان میں حکومت قائم کرے گی، پاکستان میں انتخابات کے بعد جس طرح سے پاکستان کی شکست خوردہ سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کی الزامات لگا کر عام انتخابات کے عمل کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے اسے دیکھ کرمجھے شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی یاد آرہی ہے جب بھارتی میڈیا نے اپنے ملک کی ٹینس اسٹار کی پاکستانی کرکٹ اسٹار سے شادی کو انا کا مسئلہ بناتے ہوئے شعیب ملک کی شادی کو اس قدر اسکینڈلزائزڈ کردیا کہ شعیب ملک اور ان کے اہل خانہ میڈیا کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے باعث ڈپریشن میں مبتلا رہے، اس وقت یہی کام ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی کیا ہے کہ انتخابات میں شکست اور اقتدار نہ ملنے کا یقین ہو جانے کے بعد انتخابات کی شفافیت کو اس قدر داغدار کر دیا شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل کے باعث پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی بھی ہوئی ہے اور عام انتخابات کے شفاف ہونے پر دنیا بھر میں بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں تاہم شاید اسے بھی ہمارے دانشور جمہوریت کا حسن کہہ کرٹال دیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے تاہم میرا مسئلہ اس وقت یہ جاننا تھا کہ مسلم لیگ ن کی نئی حکومت کس طرح پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہو سکے گی جبکہ جاپان جیسا دوست ملک پاکستان کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کس طرح پاکستان کی نئی حکومت کی مدد کر سکتا ہے لہٰذا جاپان پہنچنے کے فوراً بعد میں نے اپنے جاپانی دوست جو پاکستان اور افغان امور کے ماہر اور جاپان کے چوٹی کے سفارتکار بھی رہے ہیں سے ملاقات کے لئے رابطہ کیا تاکہ میاں نواز شریف کی حکومت کے ساتھ جاپان کے ممکنہ معاشی تعلقات پر ان کے خیالات جان سکوں، اگلے روز میں اپنے دوست جاپان کے سابق سفارتکار سے ملاقات کیلئے ٹوکیو کے پوش علاقے میں واقع ان کے گھر میں موجود تھا ، چار کمروں کے اس اپارٹمنٹ کو سلیقے سے سجایا گیا تھا جس میں جاپان کی ثقافت نمایاں ہورہی تھی جبکہ کئی جگہ پاکستان سے لایا گیا ہاتھ سے بنا ہوا قالین بھی ڈرائنگ روم کی خوبصورتی میں اضافہ کررہا تھا ، میرے اس سوال پر کہ جاپان کی حکومت کے گزشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رہے ہیں جبکہ اب نئی قائم ہونے والی میاں نواز شریف کی حکومت کے ساتھ جاپان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہوسکتی ہے اور کس طرح جاپان پاکستان کو درپیش معاشی بحران میں پاکستان کی مدد کرسکتا ہے۔ میرے سابق جاپانی سفارتکار دوست نے پہلے ہی اپنا نام نہ شائع کرنے کا وعدہ لیتے ہوئے بتایا کہ جاپان پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کی بے حد قدر کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جاپان نے پاکستان کومشرف دور سے ہی بھاری مالی امداد فراہم کی ہے تاہم پیپلز پارٹی کے آخری دوسالوں میں ہمیں یہ خدشات رہے ہیں کہ شاید ہماری فراہم کی جانے والی امداد شفاف طریقے سے استعمال نہ کی جا رہی ہو لہٰذا جاپانی حکومت نے نقد امداد فراہم کرنے سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کو خود مکمل کرانے پر زور دیا تاکہ کرپشن کے امکانات کم سے کم رہیں تاہم میں ماضی سے زیادہ مستقبل پر فوکس کرتا ہوں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو نئی حکومت کے طور پر ہنی مون کا ٹا ئم شاید زیادہ نہ مل سکے کیونکہ پاکستان خاص طور پر پنجاب میں لوڈشیڈنگ کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اور اگر فوری طور پر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو ن لیگ کی حکومت شروع سے ہی عوامی دباؤ کا شکار ہوجائے گی جبکہ جہاں تک جاپان کے تعاون کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ جاپان پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ سول امداد فراہم کرنے والا ملک ہے جبکہ جاپانی امداد ہمیشہ کسی شرائط کے بغیر ہی عوامی فلاح و بہبود کیلئے دی جاتی ہے جبکہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جاپان ایک ہزار ارب ین کی امداد پاکستان کو فراہم کرچکا ہے جس میں زیادہ تر امداد بجلی کی ترسیل کے منصوبوں ، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ، پانی کی صفائی کے منصوبوں ، سڑکوں اور ہائی ویز کی تعمیر کے منصوبوں ، تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر خرچ ہوئی ہے جبکہ مشرف دور میں بھی جاپان نے پاکستان کو سالانہ پانچ سو ملین ڈالر کی امداد بطور آفیشل ڈیولپمنٹ اسسٹنس فراہم کرتا رہا ہے تاکہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز سے نجات دلائی جاسکے لہٰذا اگر حکومت پاکستان جاپانی حکومت سے درخواست کرے تو یہ ممکن ہے کہ جاپان نہ صرف پاکستان کو بجلی کے منصوبوں میں بھاری امداد فراہم کرسکے گا بلکہ دیگر معاشی مشکلات میں بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کرسکے گا تاہم قوم کو میاں نوازشریف سے ایک شکایت بھی رہی ہے کہ ماضی میں انہیں دورہ جاپان کی دعوت دی گئی تھی تاہم جب جاپان میں ان کے دورے کے حوالے سے تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں تو اچانک مصروفیات کے باعث میاں نوازشریف نے جاپان کا دورہ منسوخ کر دیا تھا جس سے جاپان حکام کو کافی مایوسی ہوئی تھی جبکہ کچھ اسی طرح کا واقعہ حمزہ شہباز شریف کی جانب سے بھی پیش آیا جب جاپان کے سرکاری دورے کی دعوت کو آخر وقت میں انہوں نے منسوخ کردیا تھا جس سے جاپانی حکومت اور عوام کے دلوں میں شکایتی جذبات پیدا ہوئے تھے تاہم ایک بار پھر قدرت نے میاں نواز شریف کو پاکستانی قوم کی قیادت کیلئے منتخب کیا ہے،اس وقت میاں نواز شریف عالمی برادری کیلئے انتہائی قابل قبول شخصیت کے طور سامنے آئے ہیں جو پاکستانی عوام کیلئے خوش آئند بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت میاں نواز شریف ایسی بہترین ٹیم اپنی کابینہ کی صورت میں میدان میں اتار یں جو عالمی برادری سے ملکی ضروریات کے مطابق ایسے منصوبے شروع کراسکے جو پاکستانی عوام کو مشکل وقت میں راحت فراہم کر سکیں ۔
تازہ ترین