• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل دخار…سیمسن جاوید
2020-21کی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ[لاہورجماعت دوم کی اردو کی کتاب میں مبینہ طور پر مسیحی طالب علم جوزف نامی کو عیسائی لکھنا اور اور اسکی شناخت کالے رنگ سے کروانا ذہنی ایذارسانی کے زمرے میں آتا ہے۔ ،( کسی شہری کو محض نسل ،مذہب،ذات یا مقام پیدائش کی بنا پرامتیاز ی سلوک کرنا سراسرایذارسانی ہے)۔پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی مسیحی کو عیسائی بلانا اور لکھنا منع ہے۔جماعت دوم کے مصنفین ،مدیر اور جائزہ کمیٹی کی خدمت میں عرض ہے کہ جب بھی سکول کے نابالغ بچوں کے لئے ٹیکسٹ بک لکھی جاتی ہے تو بچوں کے ذہنی معیار ،معاشرے، ملکی اور قومی ہم آہنگی کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے کہ موادایسا نہ ہو جس سے بچے ذہنی طور پر نفسیاتی تناؤ کا شکار ہوں۔ تعلیمی نصاب بچوں کی ذہنی نشوونما پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔کیونکہ بچے کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں جس پر جو لکھ دیا جا ئے وہ نقش ہو جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کلاس دوم میں دوسرے مذاہب کے بچے علم حاصل نہیں کر رہےہوتے تو جب وہ اس طرح کا جملہ سنیں گے کہ ( وہ کالے رنگ کا لڑکا کون ہے تو دوسرابچہ بتائے گا کہ وہ کالا لڑکا جوزف ہے)تو اْس وقت کلاس میں موجود مسیحی بچے پر کیا گزرے گی کیا وہ ذہنی تناؤ کا شکا ر نہ ہوگا؟۔ہماری پنجاب ٹیکسٹ بورڈ لاہور سے گزارش ہے کہ وہ جن کو ہم کافر کہتے ہیں۔اگر ہم دورِ حاضرہ میں ان کی اخلاقی اور انسانی حقوق کے سلسلے میں اقدام کی چند بنیادی مثالوں ہی کی تقلید کرلیں تویقین جانیں پاکستانی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے ۔ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ غلامانہ سوچ، بنیاد پرستی ور نسل پرستی ہرمذہب اور ہر ملک میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے مگر جن ملکوں نے نسل اور بنیادی پرستی کا خاتمہ کر لیا یا اس کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدمات کئے ہیں اوروہ ان پر کسی بھی حالت میں سمجھوتہ نہیں کرتے۔ آج ان ملکوں نے ہر لحاظ سے ترقی کی ہے اور ان کا معاشرہ ایک مہذب معاشرہ کہلاتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب انگلینڈ میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔تاریخ میںکالوں پر ظلم کی انمٹ داستانیںموجود ہیں مگر انگلینڈ نے غلامی کے عمل کو ختم کرنے کے لئے مہمات چلائیں اورایسے قوانین بنائے کہ اب یہاں کوئی بھی کسی کو رنگ ،نسل و مذہب کی بنیاد پر ہراساں نہیں کر سکتا۔اور اگر کوئی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ قانون کے مطابق سزا کا حقدار ہوتا ہے۔ درسی کتب میں کہیں بھی امتیاز نہیں ملتاجس سے کسی بھی نسل ،رنگ اور مذہب سے تعلق رکھنے والے کی دل آزاری ہو اور اگرانجانے میں ہی کوئی ٹیچر یا بچہ کسی کے خلاف شکایت کردے یا کہیںامتیاز برتنے کا ثبوت مل جائے یا کم عمر بچہ ہی کسی کو کالا، گورا، موٹا کہہ دے یا اس کے مذہب کے خلاف بات کہہ دے تو بچے اور اس کے والدین کیلئے نہ صرف مصیبت بن جاتی ہے بلکہ معافی نامہ لکھنا پڑتا ہے ۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بچے کو سکول سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ انسانیت کا درس ہے کہ دوسرے انسان کے احساسات، مشکلات اور سوچ کو سمجھ کر ان کا مداوا کیا جائے ۔ انسانیت ہر انسان کو برابر ی کاحق دیتی ہے۔ ہر مرد، عورت، کمزور، طاقتور، گورے، کالے نیز ہر قسم کے انسان کو بلا امتیاز برابری دینے کا نام ہی انسانیت ہے۔ انسانیت میں غلامی کی گنجائش قطاً نہیں۔کئی دہائیوں سے پاکستان مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی سے دوچارہےجس کی روک تھام کے لئے کوئی قابلِ ذکر،ٹھوس اور بنیادی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ سابقہ دورِ حکومتوں میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم و جبر کی ان گنت داستانیں رقم ہوئیں۔ پشاور آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کے نتیجے میں معصوم بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت کے بعد آرمی نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عصب شروع کیا اور نواز حکومت نے فوجی عدالتیں اور مولویوں کے جمعہ خطبہ کی مانیٹرنگ کی اورمسجد کے سپیکر کے غلط استعمال اور مخالف مذہبی لٹریچر پر پابندی عائد کردی ۔ آرمی کے مسلسل آپریشن اور حکمت عملی اور خدا کے فضل و کرم سے دہشت گردی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیااور پاکستان کی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔مگراس مذہبی انتہا پسندی اور تشدد پسندی کے پیچھے چھپے اصل محرک کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ تعلیمی نصاب میں ہیرا پھیری کرنا اقلیتی طلبا کے معصوم ذہنوں کیلئے سلو پوئزن کا کام کرتا رہا۔سائنسی علم سے لے کر اردو اور انگلش ادب میں غیر مسلم کومسلسل نظر انداز کیا گیا جس پر مسلسل احتجاج اور Review ہوتا رہا۔ تین چار سال میں کچھ تبدیلیاں ضرور کی گئیں مگروہ اس بڑے تعصب کو ختم کرنے میںناکافی ثابت ہوئیں۔ تین سال پہلے پاکستان کی سپریم کورٹ نے مسیحیوں کے پرزور احتجاج پر ان کے لئے لفظ عیسائی استعمال کرنے کی بجائے لفظ مسیحی استعمال کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا تھا۔اس کے باوجود پنجاب ٹیکسٹ بک میں کلاس دوم کے نصاب میں مبینہ طور پرعیسائی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔اور اس نصاب کے مصنفین اور مدیر اور جائزہ کمیٹی کے خواتین و حضرت کافی اعلیٰ یافتہ ہیں مگر کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ مسیحی بچے کی شناخت کے لئے اسکے گلے میں صلیب کو دکھایا جا سکتا تھا جو اصل میںمسیحیت کا نشان ہے۔مسیحیوں کیلئے کالے رنگ کی پہچان صرف انڈیا اور پاکستان میں ہی بتائی جاتی ہے۔ حالانکہ پاکستان میں ہی بہت سے مسیحی مسلمانوں سے بھی زیادہ صاف رنگ کے ہیںاور دنیا گورے مسیحیوں سے بھری پڑی ہے۔گورا یا کالا رنگ ہونا خطے کی پہچان ہے نا کہ مذہب کی۔ اگر ایسا ہوتا تو مڈل ایسٹ اور افریقی ممالک کے سارے مسلمان گورے ہوتے۔کتاب سے متعلقہ اور اس کتاب کو سپورٹ کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ جب آپ بچوں کو ایسا سلیبس دیں گے اور ا ن کے کچے ذہنوں کی پرورش اس طرز پر کر یں گے تو ان کا ذہن تو یہی قبول کرے گا کہ جتنے کالے ہوتے ہیں وہ سب مسیحی ہی ہوتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کالے کٹر مسلمانوں کو بھی مسیحی نہ کہنا شروع کر دیں۔تو گزارش یہ ہے کہ خدارا لوگوں کے ایمان کے ساتھ کھیلنا بند کریں کیونکہ یہ عمل سراسر تعصب پر مبنی ہے۔ہماری وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان اور صدر پاکستان جناب عارف علوی سےگزارش ہے کہ اس کتاب کو بین کریں اور اس کی انکوائری کروائیں تاکہ پھر ایسانصاب شائع نہ ہوجس سے اقلیتوں کی دل آزاری ہو۔
تازہ ترین