• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک کم نصیبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کسی اعزاز کو بھی ماتھے کا جھومر نہیں بنا پاتا۔ حالیہ انتخابات اس کی تازہ مثال ہیں۔ ذرا یاد کیجئے کہ انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کیا کیا کوششیں نہیں ہوئیں۔ دہشت گردی کی ایک خون آشام لہر اٹھی۔ خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک شاید ہی کوئی اہم جماعت ہو جس کے امیدواروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ پھر کینیڈا کے شیخ الاسلام جبہ ودستار سمیت وارد ہوئے،کوئی نہ جان پایا کہ یکایک ان کے دل میں پاکستان کی یاد نے کیوں انگڑائی لی۔ اربوں روپے کی بھری برسات میں انہوں نے بڑے بڑے جلسوں اور دھرنوں کے جھولے ڈالے۔ نعرہ کیا تھا”سیاست نہیں ریاست“۔ دانشوروں کی ایک فوج ظفر موج ان کے ہمرکاب ہوگئی۔ چرچا ہوا کہ قوم و ملک کے مسائل کا حل انتخابات نہیں ایک صاف ستھری فرشتہ خو حکومت بننی چاہئے جو تین چار سال تک قائم رہے پھر دیکھی جائے گی۔ میڈیا بے یقینی کی گرد اڑاتا رہا، الیکشن کے دن تک عوام کو یکسو نہ ہونے دیا گیا لیکن کیا قوم ہے کہ 11مئی کو پورے عزم کے ساتھ اپنے گھروں سے نکلی اور تمام جمہوریت بیزار عناصر کو پیغام دے گئی کہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود ہم کریں گے۔ دھرنا بازوں کی چلی نہ بارود پاشوں کی۔ جنرل کیانی نے کیا عمدہ خراج تحسین پیش کیا ہے”قوم نے دہشت گردی کے خطرے کے باوجود ووٹ دے کر گمراہ کن اقلیت کو شکست دے دی“۔ اس گمراہ کن اقلیت میں دہشت گردی کا طوفان اٹھانے والے بھی تھے، شیخ الاسلام جیسے فتنہ پرداز بھی اور وہ دانشوران بادنما بھی جن کے قلم ہواؤں کے رُخ پہ چلتے ہیں۔ قوم نے ان سب کے ارادوں پہ خاک ڈال دی۔
ساری دنیا کے مبصرین نے ان انتخابات کو پاکستانی تاریخ کے بہترین انتخابات قرار دیا۔ بلاشبہ الیکشن کمیشن سے کوتاہیاں ہوئیں، انتظام کاری کی چولیں بھی ڈھیلی رہیں، کہیں عملہ نہ پہنچنا،کہیں مہریں نہ تھیں، کہیں بیلٹ پیپرز بروقت نہ پہنچائے جا سکے، گنتی میں بھی غیرضروری تاخیر ہوئی۔ ہمارے ہاں کے مخصوص ماحول کے مظاہر بھی دیکھنے میں آئے۔ پاکستان کا مستعد میڈیا اپنے کیمروں کے ساتھ دن بھر چوکس رہا۔ شام ڈھلے پوری قوم کا تاثر یہی تھا کہ انتخابات بخیر و خوبی ہوگئے۔ کراچی میں صبح ہی سے دھونس اور دھاندلی کی خبریں آنے لگی تھیں، شام تک بیشتر جماعتیں بائیکاٹ کر گئیں لیکن ملک کے کسی دوسرے حصے سے اس طرح کی حیاباختہ دھاندلی کی کوئی واردات نہ ہوئی۔ نتائج کم و بیش وہی نکلے جن کا اظہار عالمی اور داخلی سروے رپورٹس میں ہورہا تھا۔
میں نے لکھا بھی اور کئی ٹی وی شوز میں بھی کہا کہ باقی جماعتیں تھوڑا بہت کسمسا کر نتائج تسلیم کرلیں گی لیکن تحریک انصاف کے لئے کڑوی گولی نگلنا مشکل ہوگا۔ جب چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا معاملہ زیر بحث تھا تو ایک محفل میں، جہاں بردار عزیز احسن اقبال بھی موجود تھے، میں نے کہا کہ آپ عمران خان سے باضابطہ درخواست کیجئے کہ وہ خود الیکشن کمشنر بن جائیں یا پھر اپنی جماعت کے کسی ایسے فرد کو نامزد کردیں جو انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا۔ شرط صرف یہ رکھیں کہ اس کے بعد وہ چوں چرا کے بغیر انتخابی نتائج مان لیں گے۔ احسن نے یہ بات کسی ٹی وی شو میں بھی کہہ ڈالی اور یوں وہ پریس کی زینت بھی بن گئی۔ مجھے یقین تھا کہ پی ٹی آئی تبدیلی اور انقلاب کے کتنے ہی دعوے کیوں نہ کرے، وہ اول و آخر ایک روایتی اسٹیٹس کو پارٹی ہے جس کی رگوں میں دوڑتے ہر قطرہٴ خوں کے اندر ہمارے دقیانوسی سیاسی کلچر کے جرثومے دوڑ رہے ہیں، سو وہ کبھی خوش دلی کے ساتھ نتائج تسلیم نہیں کرے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خواب فروشوں کا کمال فن تھا۔ انہوں نے خان صاحب کو باور کرادیا تھا کہ وہ اگلے وزیراعظم ہیں۔ خرخشوں میں پڑے بغیر وہ اپنی کابینہ تشکیل دیں اور پالیسیوں کی صورت گری کریں۔ شوخ و شنگ میڈیا نے رنگ و نور کا ایک ایسا طوفان اٹھایا کہ پوری قوم کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ پیسے کی فراوانی نے وہ سماں باندھا کہ مسلم لیگ (ن) گھر کے کسی کونے میں دبکی خادمہ دکھائی دینے لگی۔ اینکرز نے باور کرادیا کہ تحریک انصاف اقتدار کے حجلہ عروسی میں داخل ہونے کو ہے۔ یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی سانسیں تقریباً ڈوب چکی ہیں۔ 11مئی کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوجائے گی اور 12مئی کو تجہیز و تکفین کی رسومات ادا کردی جائیں گی۔
اس فضا نے خان صاحب ہی نہیں، جانبازانِ انصاف اور نونہالانِ انقلاب کی رگوں میں بھی بجلیاں بھر دیں۔ وہ اپنی فتح کامل کے نشے میں ایسے سرشار ہوئے کہ آنکھوں پہ پٹیاں باندھ لیں اور کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ جس کسی نے کہا کہ زمینی حقائق کا منظر نامہ کچھ اور ہے، آپ بس دو درجن کے لگ بھگ ہی سیٹیں لے پائیں گے اسے نشانے پہ دھر لیا گیا اور ایسی گالیاں دی گئیں کہ خدا کی پناہ۔ خواب فروشوں کے مدھر گیتوں کی تان پہ رقص کرتا قافلہٴ انقلاب آگے بڑھتا اور اقتدار کے سہانے منظر تراشتا رہا۔ یہاں تک کہ 11مئی کا سورج طلوع ہوا اور پھر 12مئی نے وہ نوشتہ بے نقاب کر دیا جو درودیوار پہ بہت پہلے سے لکھا تھا لیکن خواب خراموں کو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
نئے پاکستان کی دعویدار، تبدیلی کی پرچم بردار اور انقلابِ نو کی علمبردار تحریک انصاف کے لئے بہت اچھا ہوتا کہ وہ مردانگی کے ساتھ یہ نتائج قبول کرلیتی۔ اس کی کارکردگی غیر معمولی رہی،اس کے نسبتاً گمنام سے امیدواروں نے بے تحاشہ ووٹ لئے، نوجوانوں نے زبردست تحرک کا مظاہرہ کیا۔ وہ اشرافیہ گھروں سے نکلی جو انتخابات کو غریب غربا کا کھیل سمجھتی تھی۔ تحریک انصاف کی اٹھان نے مسلم لیگ (ن) کو بھی مہمیز کیا جو نیم خفتہ سی حالت میں پڑی تھی۔ اسے ایک صوبے میں حکومت بھی مل رہی ہے،اس نے کراچی کے قلعے میں بھی شگاف ڈال دیا ہے، یہ معمولی کامیابیاں نہیں۔ کسی جماعت کی کارکردگی اور قومی سیاست پر اس کے اثرات محض انتخابی فتوحات کے پیمانے سے نہیں ماپے جاتے۔ بلاشبہ عمران خان نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہیں چاہئے تھا کہ اپنے نوجوانوں اور پرستاروں کو احساس کامرانی کا تفاخر دیتے، ان کے حوصلے بڑھاتے، انہیں سفر جاری رکھنے کا عزم نو عطا کرتے لیکن انہوں نے ایک اور سیاسی ٹھوکر کھائی اپنے پیروکاروں کو بے ننگ و نام سی راہ پہ ڈال دیا۔ گزشتہ روز میں لاہور کے ڈیوس روڈ پہ کوئی دو گھنٹے پھنسا رہا کہ ٹریفک جام تھی۔ ”صاف چلی شفاف چلی“ کے عشاق ”دھاندلی“ کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے۔ ایک بوڑھا درمیانی فٹ پاتھ کی گھاس پر پڑا تھا۔ کچھ لوگ اسے گتے کے پنکھوں سے ہوا دے رہے تھے شاید اسے اسپتال پہنچایا جانا تھا لیکن سامنے نیا پاکستان انگڑائی لے رہا تھا۔
اور اب ریاست کے سربراہ، عالی مرتبت آصف علی زرداری نے بھی کہہ دیا ہے کہ پیپلز پارٹی قومی اور عالمی اداروں کی سازش کا شکار ہوئی۔ صدر گرامی قدر کو اب کون یاد دلائے کہ جب آپ نواز شریف کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کے لئے عمران خان کو اجالنے اور پی ٹی آئی کو اچھالنے کی حکمت عملی پہ کام کر رہے تھے اور اربوں روپے اس مشن کی چتا میں جھونک رہے تھے تو ایک سیانے نے آپ سے کہا تھا کہ ”اسے اتنا زیادہ راتب بھی نہ ڈالو، ایسا نہ ہو یہ تم کو ہی نگل جائے“۔ انتخابی نتائج دو ٹوک انداز میں بتارہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک قائم رہا بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا لیکن تحریک انصاف پیپلزپارٹی کو نگل گئی۔ قرآن اسی لئے کہتا ہے کہ اللہ سے بہتر کوئی تدبیر کار نہیں۔ اب خان صاحب اور صدر عالی مقام، پاکستان پہ رحم کریں۔ قوم کے فیصلے کو مان لیں اور پاکستان کے سر وہ سہرا سجنے دیں جس کی رعنائی و زیبائی کو ایک عالم سراہ رہا ہے۔
تازہ ترین