• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرداری کے پھر سب پہ بھاری ہوجانے کے بعد مسلم لیگ(ن) نے بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے چند منطقی نتائج سامنے آئیں گے۔

پہلا نتیجہ یہ کہ اب مارچ تک حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت سیاسی طور پر اتنی مضبوط اور اپوزیشن اتنی بے وقعت ہوجائے گی کہ چند مزید ماہ بھی حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھاسکے گی ۔دوسرا منطقی نتیجہ یہ پی ڈی ایم کا انقلابی بیانیہ اخلاقی جواز سے مزید محروم ہوجائے گا۔

کیونکہ جن اسمبلیوں کو وہ جعلی کہہ رہی ہے، ان سے سینیٹ کے انتخاب میں حصہ دار بن کر گویا وہ سینیٹ کو بھی جعلی بنانے کے عمل کا حصہ بن جائے گی۔

تیسرا منطقی نتیجہ یہ کہ ابتدا میں جارحانہ اور انقلابی بیانیے کی وجہ سے حکومت سے تنگ لوگوں یا سول سوسائٹی نے جو توقعات وابستہ کی تھیں، ان کو شدید صدمہ پہنچے گا کیونکہ عوام کو یہ پیغام مل گیا کہ اگر اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفوں کی قربانی نہیں دے سکتی وہ کوئی بڑی قربانی کیا دے گی؟

لیکن کیا پی ڈی ایم اتحاد ٹوٹ جائے گا؟ ۔ میرے خیال میں اس کا جواب بھی نفی میں ہے ۔ زرداری اور بلاول ایک بار پھر اپنے کیسز اور سندھ حکومت کی خاطرگندی سیاست کا مظاہرہ کرنے کے باوجود پی ڈی ایم سے نکلنا نہیں چاہیں گے کیونکہ انہیں احساس ہے کہ ان کو اگر اب ڈھیل مل گئی ہے تو یہ پی ڈی ایم کی برکت سے ہے اور اگر وہ الگ ہوگئے تو دوبارہ انہیں مار پڑے گی ۔

مسلم لیگ (ن) بھی پیپلز پارٹی کو اتحاد سے الگ نہیں کرنا چاہے گی کیونکہ عملاً تو اب مسلم لیگ (ن) بھی وہی کررہی ہے جو پیپلز پارٹی کررہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور قوم پرست جماعتوں کی دل شکنی ضرور ہوئی لیکن مولانا بھی پیپلز پارٹی کو الوداع نہیں کہنا چاہیں گے ۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ مولانا اور قوم پرست جماعتیں بھی سوچ رہی ہیں کہ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کو نکالنے کی وجہ سے اس کی بارگیننگ پوزیشن مزید کمزور ہوگی اور حکومت اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی ۔ یوں میرا اندازہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم اب بھی بطور سیاسی اتحاد کے برقرار رہے گا لیکن اس کے غبارے سے ہوا بڑی حد تک نکل جائے گی ۔

سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکالنے کا ذمہ دار اصل میں کون ہے؟۔ میرے نزدیک بنیادی کردار تو پیپلز پارٹی کا ہے اور یہ واحد اتحاد ہے کہ جس کو بنانے کے لئے اے پی سی بھی پیپلز پارٹی نے بلائی تھی لیکن اپنے بنائے ہوئے اتحاد پر بارگیننگ کرکے اس کے غبارے سے ہوا نکالنے کا فریضہ بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے سرانجام دیا۔

تاہم پی ڈی ایم کی باقی قیادت بھی بری الذمہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب زرداری صاحب اور بلاول صاحب وقتی طور پر انقلابی بن کر مشترکہ اعلامیہ یا جنوری کی ڈیڈ لائن وغیرہ پر ہاں کررہے تھے تو مولانا اور پی ڈی ایم میں شامل تجربہ کار سیاستدانوں نے پیپلز پارٹی کے ماضی قریب کے کردار اور سندھ حکومت یا کیسز کی مجبوریوں کو مدنظر کیوں نہیں رکھا؟۔

دراصل پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کی قیادت بھی ذمہ دار ہے کیونکہ بیانیے اور حکمت عملی میں ہم آہنگی لائے بغیر وہ ایک بڑے دعوے کے ساتھ میدان میں نکل آئی۔ چنانچہ مقتدر حلقے اگر عمران خان کو بوجھ سمجھنے بھی لگے تھے تو نواز شریف، مولانا، محمود خان اور مینگل صاحب وغیرہ کے لہجے نے انہیں دوبارہ عمران خان سے بغلگیر رہنے پر مجبور کردیا۔

اس کی بجائے پی ڈی ایم کی قیادت پہلے دن سے بیٹھ کر ایک متفقہ لائحہ عمل اور بیانیہ اپناتی کہ اس نے یک زبان ہوکر مقتدر حلقوں کے خدشات دور کرکے اپنی منزل حاصل کرنی ہے یا پھر سب نے مل کر دبائو لانے کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنا ہے تو شاید اب تک پی ڈیم ایم اتحاد اپنا مقصد حاصل کر چکا ہوتا۔

ایک سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی واقعی تحریک عدم اعتماد کے آپشن کو آزمانے کی وجہ سے استعفوں اور اسٹریٹ پاور کے بیانیے سے پیچھے ہٹی اور کیا عدم اعتماد کی کامیابی کا کوئی امکان ہے؟۔ میرے نزدیک دونوں کا جواب نفی میں ہے۔ عدم اعتماد کا شوشہ پیپلز پارٹی نے صرف اپنی خفت مٹانے کے لئے چھوڑا ہے۔

پیپلز پارٹی کو اگر یہ یقین دلایا گیا ہے کہ پنجاب میں تبدیلی کے عمل میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے گا تو پھر سوال یہ ہے کہ مرکز میں کیوں نہیں؟ پنجاب میں تبدیلی کے عمل میں پی ڈی ایم سے تعاون کا مطلب یہ ہوگا کہ مقتدر حلقوں اور عمران خان کے تعلقات خراب ہوجائیں گے اور جب تعلقات خراب کرنے ہی ہیں تو پھر مرکز میں وہ یہ رسک نہیں لیں گے۔

لیکن اگر ایسی یقین دہانی نہیں ہے تو پھر پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحریک کسی صورت کامیاب نہیں کرسکتی۔ ماضی قریب میں اس نے دیکھا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی واضح اکثریت اقلیت میں بدل دی گئی۔ یہاں تو معمولی سہی لیکن بہر حال دونوں جگہوں (پنجاب اور مرکز) میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقیناً یہ اندازہ ہے کہ نون لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی عدم اعتماد کے گناہ بے لذت میں حصہ دار نہیں بننا چاہیں گے اور جب وہ بھی سنجیدہ نہیں ہوں گے تو کہاں کا عدم اعتماد اور کیسا عدم اعتماد؟

آخری سوال یہ کہ پی ڈی ایم کے آسمان سے زمین پر آنے یا پھر اس کے غبارے ہوا نکالنے کا زیادہ نقصان کس کو ہوگا؟ میرے نزدیک سب سے زیادہ نقصان خود پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ اب تو بظاہر زرداری، سب پہ بھاری ہوگئے ہیں اور پی ڈی ایم کے ذریعے اپنا کام نکلوا کر زرداری اور بلاول کامیاب قرار پائے ہیں لیکن لگتا ہے کہ مارچ کے بعد سب سے زیادہ برا بھی ان کے ساتھ ہوگا۔

ایک تو عوام اور میڈیا کی نظروں میں سب سے زیادہ سبکی پیپلز پارٹی کی ہوگئی ہے۔ اس کے گناہوں کی فہرست میں اتحادیوں اور عوام کو دھوکہ دینے کے ایک اور گناہ کا اضافہ ہوجائے گا لیکن اس کے اس رویے کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ آگے جاکر پی ڈی ایم ، پیپلز پارٹی کے بغیر انتخابی اتحاد بن گیا تو پیپلز پارٹی کا سندھ سے بھی صفایا ہوجائے گا۔

اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے پاس ووٹ ہوگا اور وہ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے اس لئے مستقبل میں بھی اس سے ڈیل کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔

مولانا اور قوم پرست جماعتوں کے پاس اسٹریٹ پاور ہے اور ریاست کے فالٹ لائنز میں کردار کی وجہ سے ان سے بھی بات بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس کیا ہوگا جس کی بنیاد پر اس سے بارگیننگ کی کوشش کی جائے؟ یوں مجھے لگتا ہے کہ وقتی طور پر سب پر بھاری ہوجانے والے زرداری منطقی نتیجے کے طور پر خود اپنی پارٹی کے لئے بھاری ثابت ہوں گے۔

تازہ ترین