• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں جوبائیڈن نے امریکہ کے 46 ویں صدر کا حلف اٹھایا اور اسلام اور پاکستان مخالف ٹرمپ کے 4 سالہ دور کا خاتمہ ہوگیا۔ دنیا بھر میں مجھ سمیت کروڑوں لوگوں نے جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کو دیکھا جو اس سے قبل ہونے والی تقریب حلف برداری سے بہت مختلف تھی۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جوبائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ منقسم امریکی قوم کو متحد کرنے کیلئے مخالفین کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کو تیار ہیں کیونکہ اختلافات بغیر تشدد اور لڑائی حل کئے جاسکتے ہیں جس سے امریکہ ترقی کرے گا۔

جوبائیڈن کی دوستانہ تقریر اور اپوزیشن کو ساتھ لے کرچلنے کی دعوت کو امریکیوں نے تو بہت سراہا مگر اُن کے اِس رویئے سے مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کو مایوسی ہوئی کیونکہ انہوں نے اپنی تقریر میں نہ یہ کہا کہ ٹرمپ اور اس کے رفقاکو این آر او نہیں دوں گا، نہ پچھلی حکومتوں کی کرپشن اور قومی خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا، نہ ٹرمپ کو ملک دشمن یا غدار کا سرٹیفکیٹ دیا، نہ جیل میں ڈلوانے اور کمرے کا اے سی اتروانے کی دھمکیاں دیں، نہ منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ ’’اوئے ٹرمپ، میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔‘‘ نہ حکومتی کابینہ کا کوئی رکن بوٹ اٹھائے ٹی وی شو پر جلوہ گر ہوا، نہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی باتیں ہوئیں، نہ عوام سے 100 دن کی مہلت مانگی اور نہ یہ کہا کہ ابھی ہم ٹرینڈ ہورہے ہیں، نہ ’’نیا امریکہ‘‘ کی بات کی اور نہ عوام کو بتایا کہ تمام سیاستدان کرپٹ اور بزنس مین ٹیکس چور ہیں جو منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور ان کی بیرونِ ملک دولت کو نیب کے ذریعے واپس لاؤں گا۔ نہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کو نیلام کرکے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے بلند بانگ دعوے اور اعلان کئے، نہ لوگوں میں مویشی تقسیم کرکے معاشی حالات میں بہتری کے طریقے بتائے، نہ انہیں زیتون کے درخت لگاکر انقلاب لانے کا مشورہ دیا، نہ ہی یہ اعلان کیا کہ میں پروٹوکول نہیں لوں گا، نہ گورنر اور وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں بدلنے کا اعلان کیا، نہ امریکیوں کو ایک کروڑ ملازمتیں اور 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا تاہم جوبائیڈن نے حلف لیتے ہی قلم اٹھایا اور وہ کچھ کر دکھایا جو عوام چاہتے تھے۔ وائٹ ہائوس پہنچ کر جوبائیڈن نے ٹرمپ کے عوام دشمن اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 15 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کئے جن میں عالمی ادارہ صحت میں واپسی، ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت، 7 مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک پر سفری پابندیوں کا خاتمہ، غیر قانونی تارکین وطن کی امریکہ آمد کا معاہدہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے منصوبے کا خاتمہ شامل تھا۔ اس طرح انہوں نے حلف اٹھاتے ہی اپنی صدارت کے پہلے دن اور پہلے گھنٹے سے وہ کام کر دکھایا جس کیلئے اُنہیں ووٹ ملا تھا اور جس کا انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا۔

سابق صدر ٹرمپ کے 4 سالہ دور کو تاریخ میں سیاہ حرفوں سے لکھا جائے گا جس میں امریکی عوام منقسم ہوگئے۔ ٹرمپ، عمران خان کو اپنا دوست گردانتےاور مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا لالی پاپ دیتے تھے مگر اُنہی کے دور میں بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کیا ۔ ٹرمپ نے پاکستان کو دی جانے والی تمام امداد یہ کہہ کر معطل کردی کہ ’’امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی مگر بدلے میں امریکہ کو پاکستان سے کچھ نہیں ملا۔‘‘اس کے برعکس نئے امریکی صدر جوبائیڈن اسلام اور پاکستان مخالف جذبات کے برعکس اسلام اور مسلمانوں کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جوبائیڈن دو بار پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ سال2008میں جوبائیڈن نے پاکستان کیلئے اربوں ڈالر کا امدادی پیکیج تیار کیا تھا جبکہ انہوں نے پاکستان کیلئے 1.5 ارب ڈالر کی فوجی امداد کی حمایت بھی کی تھی۔

جوبائیڈن نے اسلام کا قریب سے مطالعہ بھی کیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے ایک ویڈیو پیغام نے مجھ سمیت تمام مسلمانوں کے دل موہ لئے۔ اپنے پیغام میں ایک حدیث کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مسلمانوں کے آخری نبیﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے میں برائی کو دیکھے تو اُس کو ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے اور اگر زبان سے روکنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تو اُسے اپنے دل میں برا جانے۔‘‘ انہوں نے امریکیوں کو نصیحت کی کہ مسلمانوں کی اس حدیث سے سبق حاصل کریں۔ آج یہ کالم تحریر کرتے وقت مجھے جوبائیڈن سے مراکش میں ہونے والی ملاقات یاد آرہی ہے جب وہ 2014 میں نائب امریکی صدر کی حیثیت سے مراکش میں منعقدہ گلوبل انٹرپینیورشپ سمٹ میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ اِس سمٹ میں، میں بھی مدعو تھا اور مختصر ملاقات میں جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے اور میں مراکش کا اعزازی قونصل جنرل ہوں تو جوبائیڈن نے کہا کہ ’’پاکستانی بہت عظیم لوگ ہیں‘‘۔

ترقی یافتہ ممالک اور پاکستان کے حکمرانوں کی سوچ میں فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک محاذ آرائی کی سیاست کے بجائے مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور یہی سوچ انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے جبکہ ہم مفاہمت کے بجائے محاذ آرائی اور مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر یقین رکھتے ہیںجس سے عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہورہی ہے اور ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ گوکہ ٹرمپ نے وعدوں کے علاوہ پاکستانیوں کیلئے کوئی مثبت اقدامات نہیں کئے تاہم جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے تعلقات میں بہتری متوقع ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اُمید ہے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن کا دور پاکستانیوں اور مسلمانوں کیلئے اچھا دور ثابت ہوگا۔

تازہ ترین