• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک زمانہ تھا جب گلی محلوں میں جا بجا ویڈیو فلموں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں ،جس نوجوان کو نوکری نہ ملتی یا اس کی دبئی جانے کی کوشش بارآور نہ ہوتی، وہ ویڈیو فلموں کی دکا ن کھول لیتا اور سوچتا کہ اب یہیں اس کی ”دبئی“ لگ جائے گی۔انہی دکانوں سے وی سی آر بھی کرائے پر مل جایا کرتا، ٹی وی بمع وی سی آر اور پانچ من پسند فلموں کا مکمل پیکیج فقط سو روپے میں مل جاتا ۔یار لوگ رات دس بجے سے صبح دس بجے تک وہ پانچ فلمیں یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے جیسے ایف ایس سی کا پرچہ انہی فلموں میں سے بننا ہو۔ویڈیو گیمز کی بھرمار بھی اسی زمانے میں ہوئی ۔ان مشینوں میں ایک روپے کا ٹوکن ڈالا جاتا تھا ،بعض اوقات یہ ٹوکن ایک ایک گھنٹہ چل جاتا کیونکہ مجھ جیسے بچوں نے ان گیمز کو ہرانے کے ایسے ایسے فارمولے ایجاد کر رکھے تھے کہ با لآخرگیم ختم ہو جاتی اورہاتھ باندھ کر کہتی کہ مائی باپ اب میری جان چھوڑیں اور کسی اور کو مجھ پر طبع آزمائی کا موقع دیں۔ان ویڈیو گیمز کے خلاف بعض اخبارات میں خاصا زہریلا قسم کا پروپیگنڈا بھی شائع کیا جاتا اور نام نہاد تحقیق سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی کہ ان ویڈیو گیمز کا زیادہ استعمال کرنے والے بچے کند ذہن اور غبی ہوتے ہیں اوران کے سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے (ا ب خود کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید وہ باتیں ٹھیک ہی تھیں)۔
اس زمانے کا سرکاری ٹی وی سہ پہر تین بجے ”بصیرت“ سے شروع ہوتا اوررات بارہ بجے ”فرمان الٰہی“ پر ختم ہوتا ۔ان دنوں اس سرکاری ٹی وی چینل کا ہرپروگرام ہی سپر ہٹ ہواکرتا بالکل ایسے جیسے کسی میرا تھن میں دوڑنے والا واحد شخص اوّل آجائے۔کارٹون اورالف لیلہ تو خیر بچوں میں مقبول تھے ،مگر پی ٹی وی کا اصل اثاثہ پرائم ٹائم کے دوران چلنے والے ڈرامے تھے جنہیں دیکھنے کے لئے سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ان ڈراموں کے دوران اشتہارات چلوانے کے لئے کمپنیاں منہ مانگے دام دینے کو تیار ہوتیں کیونکہ ان کی مصنوعات کی تشہیر کے لئے دوسرا کوئی چینل ہی نہیں تھا۔راگ رنگ، خبرنامہ،نیلام گھر اور 1985کی غیر جماعتی اسمبلی کی کارروائی بھی پی ٹی وی کے ”شاہکار “پروگراموں میں شامل تھے۔
اس زمانے میں سال بھر میں ڈیڑھ سو کے قریب فلمیں ریلیز ہو ا کرتی تھیں ،لاہور اس فلم انڈسٹری کا مرکز تھا،یہاں کے سٹوڈیوزکی رونقیں اپنے جوبن پر تھیں ۔یہ سلطان راہی کے عروج کا بھی دور تھاتاہم مجھے کویتا ،غلام محی الدین ،شان اورنیلی بطور اداکار پسند تھے۔نئی فلم جمعے کو ریلیز ہوتی اور اس کا پہلا شو دیکھنا ایک سعادت سمجھی جاتی۔ میں نے اس زمانے کی تقریباً ہر نئی فلم کا پہلا شو شبستان، میٹرو پول ،رتن ،گلستان ،محفل ،صنوبر اور پرنس جیسے تاریخی سنیما گھروں میں دیکھا ہے ۔ان میں سے اب غالباً شبستان ، میٹروپول ا ور پرنس ہی بچے ہیں ،باقی ٹھیکیداروں کو پیارے ہو چکے ہیں۔
اس زمانے کی سب سے بہترین تفریح کسی کزن کی شادی ہوا کرتی تھی ۔شادی سے کم از کم ایک ہفتہ پہلے تمام رشتہ دار شادی والے گھر میں جمع ہو جاتے ،رات گئے تک ڈھولکی بجائی جاتی ،صبح صادق تک گپ شپ چلتی ،چھیڑ چھاڑ ہوتی ،معاشقے پروا ن چڑھتے ،ایک آدھ نیا رشتہ بھی طے پا جاتا،اگلے دن صبح حلوہ پوریوں کا ناشتہ کیا جاتا،غرض شادی کے دن تک ایک پر لطف گہما گہمی رہتی ۔بارات کے موقع پر جب دلہن کو گھر لایا جاتا تو پھر سب کزن مل کر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں آئس کریم کھانے جاتے، واپس آ کر پھر محفل جمتی جس کا اختتام فجر کی اذان پر ہوتا۔اس زمانے کی شادی کی فلمیں بنانے کا بھی ایک مخصوص انداز ہوتا ،دلہا دلہن کی تصویروں سے جب فلم شروع ہوتی تو عموماً بیک گراؤنڈ میں ایک ہی گانا چلایا جاتا ”جدھر دیکھوں تیری تصویر نظر آتی ہے …“۔ولیمے کے بعد بھی قریبی رشتہ دار ایک آدھ دن تک شادی والے گھر میں رہتے ۔کچھ ایسا ہی ماحول مرگ کے موقع پر بھی ہوتا ۔قریبی رشتہ دار دسویں تک سوگ والے گھر میں رہتے اور پھر چالیسویں تک ہر جمعرات کو بھی اکٹھے ہوتے ۔اس زمانے میں محبت کرنا بڑے جوکھم کا کام تھا،نہ موبائل فون نہ ایس ایم ایس اوربیٹھے ہیں تصور جاناں کئے ہوئے…اور جاناں گھر سے باہر ہی نہیں نکلتی تھی۔گھنٹوں گرمیوں کی دوپہر میں اس کے گھر کے باہر ٹہلتے رہو کہ شاید چھت پر کپڑے سکھانے ہی آ جائے مگر آخر میں اس کا کوئی مسٹنڈا بھائی موٹر سائیکل پر نکلتا اور یوں گھورتاہوا جاتا کہ روح فنا ہو جاتی ۔جتیندر ،متھن چکر وتی اور امیتابھ بچن چونکہ اس زمانے کا کریز تھے اس لئے رومانس کے لئے بھی انہی ہیروز کی فلموں کے گانے کام آتے ،”دھوپ میں نکلا نہ کرو روپ کی رانی“، ”نینوں میں سپنا، سپنوں میں سجنا“، ”اکھیوں ہی اکھیوں میں تیری میری بات چلی“… اس زمانے میں نوجوانوں کے لبوں پرتھے۔
یہ 1980کی دہائی تھی،یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں مارشل لا تھا ،فوجی آمر نے چونکہ ”اسلامی “ نظام نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا اس لئے کسی ٹی وی نیوز کاسٹر کو بغیر دوپٹے کے خبریں پڑھنے کی اجازت نہیں تھی مبادا کوئی غیر شرعی خبر منہ سے نکل جائے ۔حتیٰ کہ ڈراموں میں بھی کسی اداکارہ کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا تو سٹیشن منیجر کی یوں جواب طلبی کی جاتی گویا اس غریب نے اداکارہ کے سر سے دوپٹہ کھینچا ہو۔ میں ناسٹلجیا کا شکار ہوں اور نہ ہی میرا ارادہ اس دور کی سنہری یادوں کو گلیمرائز کر کے پیش کرنے کا ہے ۔مجھے اس بات کا ماتم کرنے کا بھی کوئی شوق نہیں کہ اس زمانے میں شادی اور مرگ کے موقع پر دوست رشتہ دار اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شرکت کرتے تھے اور آج کل کے دور میں یہ مفقود ہو چکا ہے۔اس زمانے کی فلمیں،گانے، ڈرامے اتنے ہی اچھے اور برے تھے جتنے آج کل ہیں۔ مجھے اس فقرے سے ہی سخت چڑ ہے کہ ”ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوا کرتا تھا “یا ”ہمارے زمانے کی اقدار آج سے بہتر تھیں “۔ہر زمانے کا اپنا ایک نشہ اور رومانس ہوتا ہے اور رومانس چونکہ جوانی سے جڑا ہوتا ہے اسی لئے ہمیں رہ رہ کر اپنی جوانی کا زمانہ یاد آتا ہے اور اس کے ساتھ وابستہ ہر چیز ہمیں انمول لگتی ہے ۔
آج کا دور غالباً انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز ترین دور ہے، اس دور کی اپنی اقدار ہیں اور اپنے ضابطے۔ اس دور کا لائف سٹائل ،آسودگی کا معیار ،محبت کے اصول، خوشی کا پیمانہ ،روایات کی پاسداری ،سب کچھ ہی نرالا ہے۔ آج کے دور کا نوجوان نہ صرف سوال کرتا ہے بلکہ اس کا تسلی بخش جواب بھی چاہتا ہے، گھسے پٹے جوابات اور طفل تسلیوں سے اسے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔یہ دور فرسودہ نظریات کو چیلنج کرنے کا دور ہے ،جس تیزی سے اس دور میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کا ادراک شاید ہم میں سے کسی کو بھی نہیں ہو پا رہا ،یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحو ل کو دیکھ کر کڑھتے ہیں ،سماجی اقدار کی پامالی پر دل گرفتہ رہتے ہیں اور نام نہاد روایات کا احترام نہ کرنے والوں کو نئی تہذیب کے گندے انڈے سمجھتے ہیں جنہیں اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہئے ۔جو لوگ اب بھی تاریخ کے اس تیز رفتار ترین دور کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں گے ،یہ دور انہیں بے رحمی سے روندتا ہوا آگے نکل جائے گا اور وہ اسی بات پر ماتم کرتے رہ جائیں گے کہ ٹی وی پر فحاشی بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا نیوز کاسٹر کو دوپٹہ اوڑھ کر خبریں پڑھنی چاہئیں۔دس برس بعد ہم ان میں سے کسی ایک بھی مسئلے پر بات نہیں کررہے ہوں گے جن مسائل کو آج ہم نے زندگی موت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے ،صرف دس برس اور انتظار کرلیں۔
تازہ ترین