• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا واقعی جب چاہے کسی کو عزت دے یا کچھ اور۔ فخرو بھائی کا معاملہ آپ کے سامنے ہے، انہیں عمر کے کس حصے میں الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ حیران ہیں کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کس طرح ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ فخرو بھائی خدا کا شکر کریں کہ وہ تھڑے پر ادا ہونے والے خوبصورت جملے نہیں سن پا رہے کیونکہ انہیں سن کر تو اچھے بھلے جوان آدمی کو ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے اور فخرو بھائی تو چوراسی سالہ ہیں۔ صلاحیتیں ان کی اتنی جوان ہیں کہ دو ڈھائی گھنٹے بعد بھی آرمی چیف کو پہچاننے سے قاصر رہے۔ ویسے بھی فخرو بھائی کے ”کارنامے“ عجیب و غریب ہیں۔ انہوں نے قوم کو ایک متنازع الیکشن دیا ہے۔ اس الیکشن نے ہر محلے، ہر گلی اور ہر موڑ پر دھاندلی کا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ فخرو بھائی کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ کسی جگہ پر بھی دھاندلی نہ روک سکے۔ کچھ مقامات پر تو وہ خود مات کھا گئے۔ رہی سہی کسر چالاک سیاستدانوں نے پوری کر دی۔ فخرو بھائی نے الیکشن نہیں (پنجابی کا ایک لفظ ہے) ”کڑمس“ کرایا ہے۔ شاہین صہبائی نے تو فخرو بھائی کو گھر جانے کا مشورہ دیا تھا۔ میں مطالبہ کرتا ہو کہ دھاندلی کے ان الزامات کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے اور ابھی چند ایسے حقائق بیان کروں گا کہ الیکشن کو دھاندلی سے پاک کہنے والوں کو ”نانی“ یاد آ جائے گی۔صاحبو! آپ کے علم میں ہے کہ کل پورا سندھ بند رہا۔ دس جماعتی اتحاد الیکشن دھاندلی کے خلاف محو احتجاج تھا۔ فخرو بھائی نے کراچی کو موت کی کشتی پر بٹھا دیا ہے۔ دھاندلی تو دھاندلی رہی، الیکشن کمیشن خاطر خواہ سیکورٹی بھی فراہم نہیں کر سکا۔ سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی دھاندلی کا کھڑکی توڑ ہفتہ تھا۔ اس میں ریٹرننگ افسران بلوچستان قوم پرستوں کے پیچھے پڑے رہے۔ بلوچ قوم پرستوں کے نتائج کو روک کر تسلی سے ان کی جیت کو ہار میں بدلا گیا۔
خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمن سمیت کئی اکابرین نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اے این پی نے ایک لمبی چوڑی کمیٹی بنا دی ہے جو الیکشن کے نقائص پر روشنی ڈالے گی۔ رہ گیا پنجاب تو پنجاب میں دھاندلی کی آندھی تھی، مڈ نائٹ آپریشن کے پکے چور جاتے جاتے پھر بھی کچھ ثبوت ایسے چھوڑ گئے کہ دھاندلی ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ پیپلز پارٹی بلیک پیپر شائع کر رہی ہے تو تحریک انصاف وائٹ پیپر شائع کر رہی ہے۔ عمران خان نے تو موجودہ دھاندلی کو 77ء سے بھی بڑی دھاندلی قرار دیا ہے۔
آئیے دھاندلی کے کچھ طور طریقوں پر طائرانہ سی نظر ڈالتے ہیں۔ مثلاً الیکشن کمیشن نے کروڑوں کی تعداد میں بیلٹ پیپرز زیادہ شائع کرائے، اس کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کس کیلئے بندوبست کیا گیا تھا۔ بیلٹ پیپرز کی ترسیل امیدواروں کی گاڑیوں میں کیوں کر ہوئی۔ وہ کونسی وجوہات ہیں کہ جب موبائل فونز کے ذریعے لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں کا بتایا جا چکا تھا، آپ نے پورے پنجاب میں پولنگ اسکیم بدل دی۔ وہ کون سی بیماری تھی کہ اس کے علاج کے لئے ایسا ایک روز پہلے کیا گیا۔ پولنگ ڈے پر پولنگ اسٹیشنوں کی تبدیلی سمجھ سے بالاتر ہے۔ لوگ ووٹ دینے کیلئے لاہور شہر کے چکر لگاتے رہے۔ کبھی انہیں کہیں بھیجا گیا، کبھی کہیں۔ بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز ہی نہیں تھے، کچھ پریذائیڈنگ آفیسرز نہیں تھے، کچھ پر بیلٹ پیپرز کم تھے، کچھ پر ووٹرز لسٹ نہیں تھی۔ خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں پر انتہائی سست روی سے پولنگ ہوئی۔ وہاں ڈھائی گھنٹوں میں دو ووٹ بھگتانے کا تجربہ بھی ہوا اور ایسا لاہور شہر میں ہوا، کوئی جڑانوالہ میں نہیں۔ جڑانوالہ سے یاد آیا کہ وہاں ایک پڑھی لکھی خاتون سعدیہ خان الیکشن لڑ رہی تھیں انہوں نے صرف عورتوں سے ووٹ مانگے تھے، پنجاب میں جس رفتار سے عورتوں کے ووٹ ڈالے گئے یقیناً سعدیہ خان ناکام ہو گئی ہوں گی۔ ریاض فتیانہ نے ایک جج صاحب کے بھائی کو 2002ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے 24 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے ہرایا۔ 2008ء کے الیکشن میں جج صاحب کے بھائی صاحب تیسرے نمبر پر رہے اور اب اچانک عوام میں مقبول ہو گئے۔ کچھ ایسا ہی ضلع جہلم کے لدھڑ خاندان کے ساتھ ہوا۔ مجھے چوہدری شہباز حسین نے بتایا کہ جو تیسرے اور چوتھے درجے کے امیدوار تھے وہ اچانک جیت گئے۔ فواد حسین نے جنہیں بڑی مشکل سے ہرایا گیا ہے، اس آپریشن کو مڈ نائٹ آپریشن ہی قرار دیا ہے۔ آدھی رات کا ایک اور واقعہ سن لیجئے کہ پنجاب کے ایک مشہور و معروف نوجوان کو ایک وکیل کے ذریعے ریٹرننگ آفیسر نے پیغام بھیجا کہ دو کروڑ روپیہ لگے گا، جیت تمہاری ہو گی۔ پُراعتماد نوجوان کو یقین تھا کہ میں ویسے ہی جیت رہا ہوں لہٰذا وہ اس چکر میں نہ آیا مگر اس کی شکست نے اسے چکرا کر رکھ دیا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک ٹی وی چینل نے جلے ہوئے بیلٹ پیپرز دکھائے۔ یہ اسی حلقے کا قصہ تھا جہاں سے جیتنے والے کے انعامی بانڈز اکثر نکلا کرتے ہیں۔ ڈیفنس لاہور میں آٹھ دن دھرنا رہا، ضلع جھنگ میں ہنوز دھرنا ہے، اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے دیئے گئے مگر سوموٹو خاموش رہا۔ ویسے اگر سبزی مہنگی ہو جائے تو سوموٹو جاگ جاتا ہے۔آپ جنرل مشرف کو آمر کہیں مگر انہوں نے دونوں الیکشن شفاف کرائے۔ 2002ء کے الیکشن کے بعد دو مہینوں تک ان کی پسند کی حکومت نہیں بن رہی تھی۔ بہت سے صحافی گواہ ہیں کہ پھر پیپلز پارٹی میں سے آدھی رات کو پیٹریاٹ پیدا کئے گئے تھے۔ اگر 2002ء کے الیکشن شفاف نہ ہوتے تو پیٹریاٹ پیدا کرنے کی ضرورت بھی پیش آتی۔ اسی طرح 2008ء الیکشن بالکل شفاف تھے۔ اسی شفافیت کا نتیجہ ہے کہ جنرل مشرف کی تمام مقدمات سے ضمانت ہو جائے گی اور وہ ملک سے بھی نہیں جائیں گے۔ کوئی ان پر آرٹیکل چھ نہیں لگا سکے گا بلکہ وہ ملک کی خدمت کریں گے۔ میاں صاحب طالبان سے مذاکرات بھی نہیں کر سکیں گے۔ بھارت سے دوستی بھی خواب ہو گئی ہے۔فخرو بھائی! اگر آپ الیکشن شفاف چاہتے تو انتخابی عملہ فوج سے لیتے۔ یہ بیچارے ماسٹر استانیاں اور کارپوریشنوں کا عملہ تو ہوتا ہی سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ تو سیاستدانوں سے خائف رہتے ہیں۔ آپ نے ایگزیکٹوز سے پاور لے کر جوڈیشری کو دی اور… بس ریٹرننگ آفیسرز الیکشن کو لڑ گئے۔ فخرو بھائی آپ کے کارنامے قوم دیکھ چکی ہے۔ آپ نے پاکستانیوں کو ایک احتجاجی تحریک کی طرف دھکیل دیا ہے۔ بس دمادم مست قلندر ہونے والا ہے۔
تازہ ترین