• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
پی ٹی آئی ح11201کومت کارکردگی بہتر کرے سن 2016ءتا 2017میں واضح ہوچکا تھا کہ2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نہ ہی اکیلے اور نہ ہی پی پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنا پائے گی اور پی ٹی آئی اکیلے یا مخلوط حکومت بنالے گی اور ایسا ہی ہوا۔ پی ٹی آئی کے پاس مرکز میں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھا اور ان کا پختونخوا حکومتی تجربہ بھی زیادہ مشکل نہ رہا کیونکہ مسلم لیگ ن کو مرکز میں مشکلات درپیش تھیں، اس لیے مرکزی حکومت نے عافیت اسی میں سمجھی کہ ’’جنون‘‘ سے نہ ہی ٹکرایا جائے اور نہ ہی ناتجربہ کار لوگوں کے کام میں بہتری احوال کی خاطر مداخلت کی جائے۔ پانامہ معاملات میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا الجھ جانا، اس پی ٹی آئی صوبائی حکومت کے لیے ایک اسکیپ روٹ ثابت ہوا اور یہ صوبائی حکومت اسکروٹنی سے بچی رہی۔ آج مرکز میں اکثریت ان ہی لوگوں کی ہے۔ پی ڈی ایم جس طرح ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں جلسے منعقد کرکے اور نااہلی اور کرپشن کے الزامات لگاکر اپنی تحریک کو پی ٹی آئی کے ان وقتوں کے کئی درجن بڑے اجتماعات کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ اس میں غیر متحد ایجنڈا اور لوگوں کے کم جوش و خروش کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوپائی۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکومت مخالف یہ اتحاد اس وقت تک طے نہیں کرسکا کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو وزیراعظم کہے یا کسی دوسرے نام سے پکارے، ملکی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بات کرکے آپ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے آئینی وزیراعظم ہیں۔ وہ سلیکٹڈ یا الیکٹڈ ہیں، اب بحث کا حصہ نہیں رہ جاتا، ہر کسی کا آئینی فرض ہے کہ وہ اس عہدہ کا احترام کرے۔ موجودہ حکومت کی خراب کارکردگی پر تنقید کا ہر کسی کو حق ہے۔ تاہم جن حالات میں پی ٹی آئی اقتدار میں آئی، ان پر غور کرنا بھی لازم ہے، تاکہ زمینی حقائق ہمارے سامنے رہیں اور سیاسی گفتگو میں حقیقتیں قائم رہے اور ملک ہیجانی صورت حال کا شکار ہونے سے بچا رہے۔ پی پی کے دور حکومت میں کرپشن اور بجلی کے ٹھیکوں میں کک بیکس کی اتنی کہانیاں پاکستانی میڈیا میں سامنے آئیں (اور اس مرحلہ تک ہمارا میڈیا کافی جوان ہوچکا تھا۔) کہ مسلم لیگ (ن) کا2013ء کا الیکشن جیتنا ٹھہر چکا تھا۔ تاہم اس الیکشن سے قبل تجزیہ نگاروں کے درمیان اس بات کا بھی بڑی حد تک اتفاق تھا کہ یہ ایک ایسا مقابلہ ہے جس میں مخلوط حکومت بننے کے زیادہ امکانات ہوں گے۔ موجودہ وزیراعظم شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور انتخابات میں بھاری اکثریت جیتنے کے لیے پرامید تھے۔ یہ انتخابات مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ پی ٹی آئی اور پی پی کو پختونخوا اور سندھ میں حکومتیں بنانے کا موقع مل گیا۔ اگرچہ ن اور مولانا فضل الرحمن مل کر پختونخوا میں حکومت بناسکتے تھے۔ تاہم ن نے اسٹیبلشمنٹ کو آن بورڈ رکھنے کے لیے پی ٹی آئی حکومت سازی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ یہاں سے ملک کی لسانی بنیادوں پر تقسیم کے راستے بن گئے۔ اپنی کرسی پکی کرنے کی خواہشات مزید مضبوط ہوکر معاشرے پر چھا گئیں۔ نہ پی ٹی آئی دھرنا اور نہ موجودہ پی ڈیم احتجاج کو خالصتاً جمہوریت اور احتساب کی خاطر اٹھائے گئے اقدامات تسلیم کیا جاسکتا ہے اور دونوں پر اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حصوں کی مہربانیاں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج میں جنون کو زیادہ حمل دخل تھا، جب کہ پی ڈی ایم احتجاج ’’عقل ہے جو تماشہ لب بام ابھی‘‘ کی تصویر لگ رہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون، پانامہ مسائل اور میمو گیٹ جیسے اہم واقعات نے بہت کم وقت میں ن کی مقبولیت کو اس حد تک گرا دیا کہ ان کے کئی ٹکٹ ہولڈرز نے2018ء انتخابات میں حصہ ہی نہ لیا۔ پچھلے30برس کے دوران فوجی ادوار کے ساتھ ن اور پی پی بھی اقتدار کا حصہ رہی ہیں اور اس دوران کرپشن اقرباء پروری اور کک بیکس کا نظام بھی اتنا ہی مضبوط ہوگیا جتنا کہ آج دکھائی دے رہا ہے۔ ریاستی سطح پر فیصلے ہوئے کہ ملک ان ہی لائنوں پر مزید نہیں چلایا جاسکتا اور پی ٹی آئی کو آزمانے کے لیے تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ن اور پی پی نے پنجاب اور سندھ میں موجودہ حکومت کو اچھا انتخابی چیلنج دیا۔ انتخابات سے قبل رائے عامہ کے اکثر سروے ایک غیر واضح صورت حال کی نشاندہی کرتے رہے اور اسمبلی میں حکومت کی سات عددی اکثریت اس حقیقت کی گواہ ہے۔ پی ٹی آئی کے مثلاً یہ دعوے کہ ان کے پاس ایک کامیابب حکومت چلانے کے لیے 200 ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی فہرست ہے کہ یہ جماعت پہلے ایک مہینہ میں ایک لاکھ نوکریوں کا بندوبست کرے گی۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ ملک میں سرمایہ کاری کے انبار لگ جائیں گے۔ ایسے اعلانات تھے جو اقتدار سے باہر ہر جماعت ماضی میں بھی کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ وزیراعظم آج جب یہ کہتے ہیں کہ نئی جماعت کو پاور میں آنے سے پہلے حکومتی امور میں آگاہی ہونی چاہیے تو ان کی بات سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ اپنے طویل برطانوی قیام کے دوران برطانوی جمہوریت کو کام کرتے دیکھتے رہے ہیں، جہاں حزب اقتدار اور اختلاف کو پارلیمنٹ میں یکساں سہولیات اور مراعات ملتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ رہتے ہوئے بھی حکومتی کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹھاتے ہیں۔ نئے آنے والی جماعت کو جانے والے تمام امور پر پس پردہ تفصیلی بریفنگ دیتے ہیں تاکہ ریاست کے امور چلنے میں مشکلات نہ ابھریں۔ عبوری حکومت اور اداروں کو ایسی ہی پیشگی بریفنگز کا اہتمام آنے والی پی ٹی آئی حکومت کے سربراہ اور وزراء کے لیے بھی کرنا چاہیے تھا۔ یہ کام سول سروس کا تھا جو انہوں نے اس وقت بھی نہیں کیا اور آج بھی بخوشی اس کی طرف نہیں بڑھ رہی، امریکہ کی طرح چند ماہ کا وقعہ ایک اچھی آئینی ترمیم ہوگی۔ خوش آئند ہے کہ ملک کو ایک معروف وزیراعظم جو ہر ہفتہ کابینہ اجلاس بھی کرتے ہیں اور رات گئے تک حکومتی امور نمٹانے میں مصروف رہہتے ہیں میسر ہیں، کئی ترجمانوں اور معاونین کی موجودگی میں بھیی حکومت کارکردگی کی خبریں عوالناس تک نہیں پہنچ رہیں، شبلی فراز واحد حکومتی ترجمان جو مدلل گفتگو پر عبور رکھتے ہیں۔ باقی تمام ایسے ترجمان ہیں جن کی موجودگی میں حزب اختلاف کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ماسوائے پاکستان کے ہر دوسرے جمہوری معاشرے میں ہر وزیر میڈیا میں اپنے قلمدان کی مناسبت سے گفتگو کرتا ہے، مگر پاکستان وہ واحد غیر منظم جمہوریت ہے جہاں ہر منسٹر اپنے پورٹ فولیو سے باہر جاکر میڈیا بیانات جاری کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا اور حقیقی بیان کی توڑ پھوڑ کا حصہ بن کر حکومت اور وزیراعظم کے لیے مسائل پیدا کردیتا ہے۔ وزیراعظم اگر چاہتے ہیں کہ لوگ حکومتی اعلانات کو سنجیدگی سے لیں اور ان پر عمل کے حوالہ سے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ذہن بنانے پر تیار ہوجائیں تو حکومت کو بامعنی انداز میں کچھ کہتے اور کرتے نظر آنا چاہیے۔ معاشرہ میں کرپشن کی جڑیں بہت گہری ہیں اور یہاں حالات میں بہتری لانے کی خاطر پی ٹی آئی کو ایک سے زیادہ انتخابات جیتنے کی ضرورت ہے۔ بقیہ ڈھائی برسوں میں کرپشن کے دبائو کے باوجود اچھی شہرت کے بیورو کریٹس کی بتدریج ترقی اور اعلیٰ سطح پر عوام دوست فیصلے مثلاً خوردونوش اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول جیسے اقدامات یقینی بناتے ہوئے عوامی مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ آج کے مشکلت میں ایسی پیش رفت بڑی کامیابی ہوگی، وزیراعظم کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ خود اور ان کی جماعت ٹرائل پر ہیں۔ آپ کو بیشتر اداوں کی طرف سے تعاون مل رہا ہے۔ ایسے ماحول میں عوام اور دوست فیصلے کرنے آپ کے لیے مشکل نہیں ہونے چاہئیں، ناکامی آپشن نہیں ہے۔ 
تازہ ترین