لاہور میں صدر آصف علی کی آمد آمد ہے ۔ جی آیاں نوں ۔ آپ تب آئے جب شہر وفا آپ کی پارٹی سے مکمل بے وفائی کر گیا ۔ الیکشن سے پہلے لاہوری جیالے روتے دھوتے پھرتے تھے کہ پی پی بھٹو کی رہی نہ بی بی کی ، اب یہ آپ کی پارٹی ہے ۔ ستم یہ کہ آپ اپنی پارٹی کے بھی تو نہ رہے بلکہ” آپ جناب سرکار“میں گھر کر رہ گئے ۔اور جو گوہر نایاب آپ نے پنجاب کے پیروں فقیروں کے شہر سے چن کر قوم کی خدمت میں پیش کیا اور اسے اپنے اختیارات سے بھی مالا مال کر دیا ، وہ فقط دو نوں ہاتھوں سے مال سمیٹنے پر لگ گیا یا لگا دیا گیا ۔ لوٹ مار کا بازار گرم کر نے سے پہلے ملک کو تاریکی میں غرق کر دیا کہ شاید اندھیرے میں کچھ نظر نہ آئے گا اور سب کچھ ہوتا رہے گا ۔ لیکن برا ہو میڈیا کا ، یہ کم بخت موم بتیا ں جلاتا رہا اور کبھی شمع روشن کر دیتا یوں آپ کے چنے ہوئے پیر زادے کے تمام کرتوت لوگ دیکھتے رہے ۔ لاہور اور باقی پنجاب میں اندھیرے جتنے گہرے تھے ، اربوں کے حج سکینڈل کی ایک ایک تفصیل سے لے کر اربوں کے ہی ایفی ڈرین گھپلے تک خوش پوش پیر اور پیرزادوں کی دیدہ دلیری گلی گلی اتنی ہی آشکار تھی ۔سو، قانون کے ایک ہی تیر سے پیر صاحب ڈھیر ہو گئے ۔ گویا اندھیرا بھی تھا اور گلی محلوں میں لشکارہ بھی ۔ بے قابو مہنگائی ، اذیت ناک بے روز گاری اور مسلسل بد امنی میں خوار عوام پر عوامی راج کے لیے آپ نے جو دوسرا پوٹھوہاری راجہ چنا ، وہ بھی آپ کے حسن انتخاب کاشاہکار نکلا ۔ نکل تو پہلے ہی گیا تھا ، جب آپ نے ایک سالہ اقتدار کے راج کا تاج بھی اس کے سر پر رکھا تو یوں لگا کہ آ پ نے جاری و ساری ، عوام دشمن عوامی سیاست میں مداخلت کرنے والے کسی خطرناک مداخلت کار کے خلاف مزاحمت کی ہے ۔ لاہور میں آپ کے اس دوسرے انتخاب کی پہیلی تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے ہی نہیں ، لاہور کی گلی گلی میں بوجھ لی گئی تھی کہ ہما کو راجہ رینٹل کے سر پر بٹھایا گیا ، اس کامطلب کیا ہے ؟ مزاحمت بھی اور آنے والے دنوں کے مزے بھی ۔ لاہوریوں نے جو مطلب نکالا وہی نکلا۔ یہ تھا لاہور اور باقی پنجاب کے اندھیروں میں آپ کی پارٹی اور آپ جناب سرکارکے لیے چمک ہی چمک اور غریب جیالوں کے لیے فقط مہینے کا آٹا ، عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ دینا تو کیا تھا ان سے بہت کچھ چھین بھی لیا گیا ۔ جیسے روشنی ،روزگار اور امن ۔ وگرنہ زرداری صاحب !سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کہ زندہ دلانہ لاہو ر اور باقی پنجاب کے چیموں ، چٹھو ں ، بٹوں ، بھٹیوں اور ارائیوں و کشمیریوں نے کب پی پی یا بی بی سے بے وفائی کی تھی ؟ آپ کو نہیں معلو م کہ بھٹو صاحب جولائی 77ء کے مارشل لا ء کے بعد پہلی مرتبہ لاہور آئے تو ان کا کیسے دیوانہ وار استقبال کیا گیا تھا ؟ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بی بی کو اپنی دلہن بنا کر لانے سے چند ماہ پہلے، لاہوریوں نے جلا وطنی کے بعد وطن واپسی پر بی بی کو مستقبل کا وزیر اعظم نہیں بنا دیا تھا ؟ زرداری صاحب لاہور کا سینہ تو شاہی مسجد کے صحن کی طرح کشادہ ہے، یہ پی پی کا قلعہ بھی بنا اور بابا بی بی کا قافلہ وفا بھی۔ یہ برسوں شانہ بشانہ چلتا رہا ، کتنے ہی سات خون بھی معاف کیے گئے ۔ وفانبھائی تو پوری نبھائی ۔ بے وفائی کہیں اور سے ہوئی ۔ یہ بھی یک دم نہیں ۔ لاہور یے تو کم بخت بہت صابر ہیں ، بہت دیر سے پھٹتے ہیں، لیکن بڑے وقار سے کبھی خاموشی سے ، کبھی میدان میں خم ٹھوک کر۔ جیسے الیکشن77ء کی انتخابی دھاندلیوں میں باہر آگئے تھے ۔ آ گئے تو پھر مزید28نشستوں کی پیش کش قبول ہوئی نہ 40کی۔ میدان میں آئے اور میدان میں ہی رہے اور کسی کو اندر کر کے ہی گھروں میں داخل ہو ئے ۔پھر المناک کہانیاں ہیں جن کی لاہوریوں نے کوئی پرواہ نہیں کی ۔ ان کی وفا کسی بھی بغاوت کو تھامے رکھتی ہے لیکن ان کی بغاوت اپنی ہی سخاوت کے پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیتی ہے ۔ یاد آیا کہ جب الیکشن 77ء کی انتخابی دھاندلیوں کے خلا ف کراچی ، حیدر آباد، پنڈی اور پشاور میں مظاہرے شروع ہوئے تو لاہور خاموش رہا ۔کراچی اور حیدر آباد سے لاہوریوں کو چوڑیوں کے تحفے بھی آئے ۔لوہاری مسجد سے علماء کا جو جلوس نکلا اس پر پولیس کے بہیمانہ تشدد کا منظر اکبر بگٹی اخباری رپورٹروں کے ساتھ کھڑے پان منڈی کی نکڑ سے دیکھ رہے تھے اور بار بار کہتے لاہور جا گ گیا ،اب گیا …دوسرے شہروں میں مظاہروں کے باوجود لاہور ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا لیکن جب 9اپریل کو”نو منتخب“ اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو لاہوری بھڑک اٹھے ۔اسے رکوانے کے لیے مزدوروں ، خواتین ، طلبہ ، وکلا ، صحافیوں اور دوسرے طبقات کے 9جلوس مختلف مقامات سے نکالے گئے ۔ پھر جو کشت و خون اور قربانی و ایثار ناچیز نے گناہ گار آنکھوں سے دیکھتے ہو ئے رپورٹ کیا وہ ہماری تاریخ جمہوریت کا سب سے سنہری باب ہے ۔کراچی اور حید ر آباد کے شہری کانپ گئے ۔ ان کے فون پر فون اور خط آنے لگے خدارالاہوریوں کو روکو ہم نے اتنا تو نہیں کہا تھا ۔ اس کے بعد آج تک پتہ نہ چلا کہ لاہوری وفا کے بڑے پیکر ہیں یا زیادہ بڑے باغی ۔جناب زرداری !آ پ یہ تو مانیں کہ پی پی کے بار بار اقتدار کی باریاں لاہور اور پنجاب کے بغیر تو ممکن نہ تھیں۔ پنجابیوں نے پنجابیوں سے خصوصاً لاہوریوں نے لاہوریوں سے برسوں بڑے طعنے سنے کہ پی پی کو ملک پر مسلط کر نے والے ہم پنجابی خصوصاً لاہور ی ہیں ، یہ گانے کام نہ آئے اور پی پی لاہور میں دم خم سے موجود رہی ۔ لاہوریوں نے سندھی بھٹو کو پاکستان کا قائد عوام اور پی پی کو بنانے اور اسے طویل عرصے تک سب سے بڑے وفاقی پارٹی کے طور پر چلانے میں جو کردار ادا کیا اس سے حاصل تشخص ہی پارٹی کا طرہ امتیاز رہا ۔ آج کی پارٹی بھٹو کی ہے ، بی بی کی یا آپ کی ۔ سب کے رنگ اپنے اپنے تھے ،ویسے ڈھنگ کسی کا بھی نہ تھا ۔ اہمیت ضرور تھی اور بہت تھی ۔ بہر حال یہ آپ کے گھر کی بات ہے ، آپ جانیں یا ناہید بی بی یا ڈاکٹر مبشر اور جہانگیر بدر۔ ہم لاہوریوں نے تو آپ کو بار بار جتایا اور ثابت کیا کہ ہم وفا کا پیکر ہیں ۔ اس میں بہت آ گے جاتے ہیں ۔ ہماری وفا دیتی بھی بہت ہے جیسے ہماری بغاوت لیتی بھی بہت ہے ۔ معلوم نہیں آپ رفیق باجوہ مرحوم کے نام سے واقف ہیں یا نہیں۔ جلسوں پر سحرطاری کر دینے والا یہ صاحب کلام وکیل پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے آندھی کی طرح اٹھے ، جنہیں لاہوریوں نے بگھولے کی طرح بٹھا دیا ، کہ رات کے اندھیرے میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کر آئے تھے ۔ معافی کی طلب ، بڑا محال ہے کہ اب آپ کی پارٹی لاہوراو ر باقی پنجاب میں جگہ بنا سکے ۔ لاہور سے چلی ہوا تو جنوبی پنجاب میں بھی اپنا کا م دکھا گئی جہاں پیرزادے اپنی لافانی” سلطنت “قائم کر نے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ زمانہ بدل گیا ۔ 70ء کے جن بوسیدہ پوش جیالوں کے گھروں پر چمکدار ترنگے لہرا رہے تھے ان گھروں سے اب شیر کی آوازیں آئیں اور چھتوں پر بچے عوامی خان کا ترنگا لہراتے رہے ۔ یہاں ایسے ہی باغی ہوتے ہیں کہ گھرو ں میں بھی بغاوت ہوجاتی ہے ۔ بڑا مشکل ہے کہ وہ زخم مندمل ہو ں ، جو آپ کی پارٹی نے لاہوریوں کو لگا ئے ۔ ویسے جم جم لاہور آئیں ۔ یہ آ پ کا اپنا شہرہے ، ایک کیا، محلے محلے میں بلاول ہاؤ س بنائیں ۔ آپ کی یاد دہانی کے لیے اس شہر سے ہی آ پ کو” مرد حر“کا خطاب دیا تھا ۔ جب آپ نیم فوجی دور میں یہاں قید کیے گئے ۔ خطاب دینے والا بھی پاکستان سے وفاء کا پیکر ، جس نے کسی کی تنقید کی پرواہ کیے بغیر آپ کے اس استقلال کی تحسین کی ۔ اگر لاہوریوں کو واپس لانا ہے تو دو نسخے ہیں ۔ایک کھلی کھلی معافی لیکن یہ تنہا نہیں چلے گی ۔ آپ کے جتنے ساتھی پانچ سال میں امیر ترین ہوئے ، وہ اگلی پانچ سات نسلوں کے امیر تر ہونے کا خواب دیکھنے کی بجائے، پاکستان میں سر مایہ کاری کریں ۔ لاہوریوں کے پاس سب کے حساب کتاب ہیں کہ کون کتنا لے اڑا ۔حساب وہ خود لگا لیں گے ۔ ہمت ہے تو آگے بڑھیں ، یقیناافاقہ ہوگا ۔ میاں صاحب سے مفاہمت کی چھتری تلے کالی دولت کو سفید بنانے کی بات بڑی بے تکلفی سے ہوسکتی ہے کہ میاں صاحب اندر باہر سے لاہوریے ہیں اور بے تکلفی لاہور کا سب سے بڑا خاصہ ۔ یقین کریں بحالی کا روشن امکان ، وگرنہ شاہ رضا پہلوی ، سہارتو ، مارکوس ، کرنل مبوتو او ر اس قبیل کے کتنے ہی حکمرانوں کی سمندر پار ٹھکانے لگائی گئی کالی دولت مغربی بنکو ں میں مدغم ہو گئی اور ان کی نسلوں کو کچھ بھی تو نہ ملا ۔