• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پہلے تو لوگوں کے دل سے کورونا کا خوف جاتا رہا۔ دوسرا خود یہ وائرس ذلالت پر اُتر آیا۔ اس نے نئی نئی دواؤں کی تیاری دیکھ کر اپنے حلئے بدلنے شروع کردیے۔ کہا جاتا ہے کہ جنوبی افریقہ سے کورونا کا نیا اور خطرناک جرثومہ چلا ہے جو دنیا میں پھیل رہا ہے ۔ اس پر میں چونکا، کیوں کہ ماہرین کہتے ہیں کہ آدمی کے درختوں سے اتر کر انسان بننے کا واقعہ جنوبی افریقہ ہی میں کہیں پیش آیا تھا اور نسل انسانی وہیں سے چل کر پوری دنیا میں پھیلی تھی۔

اگر یہ بات درست ہے تو خیال ہوتا ہے کہ کیا ہماری نسل کا انجام بھی جنوبی افریقہ ہی سے ہونا ہے۔سائنس دانوں کا خیال ابھی اُس طرف نہیں گیا ہے۔ انہیں فکر یہ ہے کہ اب تک جوکورونا کُش ویکسین بنی ہے اس میں کون سانسخہ گھولا جائے کہ یہ بلا خیز وائرس اس کے آگے بے بس ہوجائے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کی جو دوچار کمپنیاں ٹیکے کی دوا بنا رہی ہیں ان کے ہوش ٹھکانے نہیں ۔ ساری ہی دنیا ان کے ٹیکے کی خریدا رہے۔ ان کے آگے سوال یہ ہے کہ کس کو دیں اور کس کو نہ دیں۔ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ یہ کمپنیاں مال دار ملکوں کو ترجیح دے رہی ہیں اور نادار ملکوں کو نظر انداز کر رہی ہیں ۔اور یہ کہ دنیا میں ویکسین کی تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا جارہا ۔کچھ غریب ملکوں کے پاس اتنی رقم نہیں کہ یہ گراں دوائی خرید سکیں۔ وہ دوسروں سے مدد مانگ رہے ہیں۔

یہ بھی ہوا ہے کہ بعض ملکوں نے خود اپنی ویکسین بنا تو لی ہے لیکن کچھ پتہ نہیں کہ وہ کتنی موثر ہے، اس کی جانچ پڑتا ل ہوگئی ہے یا نہیں اور اعلیٰ سائنس دانوں نے ان کی دوا کو اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھ لیا ہے یا نہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ چین، روس، ایران اور سب سے بڑھ کر بھارت نے کورونا کی دوا تیار کر لی ہے اوراب کروڑوں افراد کو ٹیکے لگیں گے۔

یہ خبر آتے ہی خود بھارت کے ماہروں کا بیان جاری ہوا کہ خبر دار، اس ہندوستانی دوا کا ابھی تک کوئی دین دھرم نہیں ہے، یہ پوری طرح آزمائی نہیں گئی، سائنس دانوں نے جلدی مچارکھی ہے اور وہ آدھی ادھوری دوا کی تکمیل پر ہی اپنی کامیابی کے ڈنکے بجا رہے ہیں۔

اس سے زیادہ تشویش ناک خبر یہ ہے کہ ہماری بھارت میں جن احباب سے بات ہوئی ان سب کا یہی کہنا ہے کہ ملک کے اندر تیار ہونے والی دوا محفوظ نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملک میں یہ بات عام طور پر کہی جارہی ہے کہ ان انجکشنوں میں زہر بھرا ہے اور انجکشن لگوانے والے بڑی تعداد میں مر رہے ہیں۔

چناں چہ کتنے علاقوں سے سننے میں آرہا ہے کہ لوگ نئی دوا کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسری مشکل یہ ہے کہ لوگوں نے کورونا کی فکر کرنی چھوڑ دی ہے ۔ وہ بےپروا ہو گئے ہیں اور عام طور پر کہا جانے لگا ہے کہ یہ سب بکواس ہے،ڈھکوسلا ہے، جھوٹ ہے۔

لوگوں کو سوتے جاگتے جو احتیاطی تدبیریں بتائی گئی ہیں انہوں نے ان تدبیروں پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے۔ ہزاروں کسان دارالحکومت میں گلا پھاڑپھاڑ کر نعرے لگا رہے ہیں اور انہیں چہرے پر ماسک منڈھنا منظور نہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں اور با اختیار لوگوں کی بے بسی اب دیکھی نہیں جاتی۔

بھارت کی بات جانے دیجئے، برطانیہ جیسے پڑھے لکھے او رمہذب ملک میں بھی کورونا بے قابو ہوگیا ہے۔ یہاں روزانہ کیسوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی ہے تو ایک طوفان بپا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شروع ہی سے بےپروائی برتی گئی اور حکومت نے پے در پے غلطیاں کیں جس کی سزا آج ہلاکتوں کی شکل میں مل رہی ہے۔

دوروز پہلے ایک ٹی وی چینل نے سروے کرایا جس میں لوگوں کی اکثریت نے کہا کہ برطانوی وزیر اعظم ذمے دار ہیں ، انہیں مستعفی ہوجانا چاہئے۔ان پر الزام ہے کہ کرسمس کے موقع پر انہوں نے عوام کو ضیافتوں کی جو اجازت دی تھی اس کے دوران مستی کے عالم میں ایس او پیز پر کون دھیان دیتا ہے۔ چنانچہ لوگ مکھی مچھر کی طرح مر رہے ہیں۔

اس پر یاد آیا کہ کرسمس کے بعد اب کثیر آبادی والے ملک چین میں نئے سال کی تقریب آرہی ہے۔ اس روز چین کے سارے باشندے کہیں بھی ہوں، اپنے گھر ضرور جاتے ہیں اور خاندان کے افراد جمع ہوکر نیا سال مناتے ہیں۔ماہرین کو ڈر ہے کہ اس موقع پر چینی باشندوں کی خیر نہیں کہ وہاں وبا کی تیسری لہر نے پہلے ہی سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔

اب کوئی یہ نہ کہے کہ آپ کودنیا بھر کی فکر کھائے جارہی ہے، کچھ اپنی فکر بھی کیجئے تو عرض ہے کہ اب دسواں مہینہ چل رہا ہے، اپنی جان بچانے کے لئے گھر میں بیٹھا ہوں اور صرف دودھ ڈبل روٹی لینے دکان تک جاتا ہوں۔ کل رات علاقے کے کیمسٹ کے پاس گیا ۔

اس نے حیران ہوکر پوچھا کہ خیر تو ہے؟تب اسے بتانا پڑا کہ د س مہینوں سے کمپیوٹر کے آگے بیٹھے بیٹھے کمر میں درد بیٹھ گیا اور حال یہ ہے کہ کروٹ بدلنا بھی محال ہے۔تب اس ماہ رو نے میری ہی فرمائش پر مشہور زمانہ ٹائیگر بام کی وہی جانی پہچانی ڈبیا دی جس کی مالش کرکے دیکھیں کہ ہماری یہ دوا کتنی کارگر ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں۔

دوسری عرض یہ ہے کہ فائزر ویکسین کا ایک انجکشن لگ چکا ہے، دوسرا لگنا تھا کہ خبر دی گئی کہ ویکسین کا نیا اسٹاک نہیں آیا اور دوسری خوراک ملتوی کی جاتی ہے۔دومہینوں کے اندر تم کو دوبارہ بلائیں گے اس وقت تک صبر کرو۔ہم ٹھہرے سدا کے مومن،ہمیشہ یہی کیا ہے سو اس بار بھی کرلیں گے۔

تازہ ترین