• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11 مئی کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا ۔ پہلی دفعہ ایک گھسٹتی سسکتی جمہوری حکومت کی طرف سے آئینی مدت پوری کرنے کے بعد پُرامن انتقال اقتدارکے ذریعے جمہوری تسلسل کے پودے کی آبیاری کی جا رہی تھی۔ مختلف وجوہات کی بنا پر اس دن سے پاکستانی قوم نے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم جمہوری اخلاقیات میں ایک بڑی جست لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ فعال ذرائع ابلاغ، آزاد عدلیہ، جارحانہ الیکشن کمیشن ، فوج کی یکسوئی وغیرہ وغیرہ نے ہمارے خوابوں کو اور بھی سہانا بنا دیا تھا۔ ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ 2013ء کسی صورت 1997ء نہیں بن سکے گا۔ آخر یہ کیسے ممکن تھا!! لیکن سب امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں اور معاملہ رہا وہی ڈھاک کے تین پات والا۔ افسوس صد افسوس!! کوئی امید بر نہیں آئی۔اوپر سے زخم خوردہ قوم کے زخموں پر پاسبانان جمود بغلیں بجا بجا کر ”میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا“ ، ”میرے فلاں تاریخ کے کالم کا اقتباس ملاحظہ ہو“ کا نمک چھڑک رہے ہیں۔ ان اصحابِ کہن سے کوئی یہ پوچھے ،آپ نے تو کہنا ہی تھا ، آپ نے تو لکھنا ہی تھا کیونکہ جو پلاٹ مہینوں پہلے تیار کیا جا چکا تھا اس کی درجہ بدرجہ رونمائی اور پردہ کشائی کا فریضہ آپ سے بہتر کون انجام دے سکتا تھا اور آپ نے واقعی کمال کر دیا، کس خوبصورتی سے آپ نے اپنے تئیں اپنا دامن بھی بچائے رکھا، جمودی قوتوں کو آکسیجن لگانے کا عمل بھی جاری رکھا، اپنی تجزیاتی فنکاریوں کا لوہا بھی منوا لیا اور اب آپ یقینا پانچ سال تک تجزئیے اور تبصرے کی دنیا کے بے تاج بادشاہوں کا کردار نبھانے کی تیاریاں کر رہے ہوں گے،آپ کو بہت بہت مبارک ہو!
پاکستانی قوم کیلئے البتہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ایسی بے مثال فتح جس کے بطن میں ابتدا ہی سے اتنا لاوا بھرا ہو ، اچھا شگون نہیں ہے۔ پاکستان پہلے پانچ سال بھگت چکا ہے ، جمہوری تسلسل کے پانچ سال ۔ ایسا جمہوری تسلسل جس میں ایک عام پاکستانی کی حالت ناقابلِ بیان حد تک زبوں حالی کا شکار ہو گئی۔ قومی تشخص اور قومی تفاخر جیسے جذبات مجروح ہو کر رہ گئے۔ امورِ حکومت سے متعلقہ تمام خامیوں کی ایک مفصل فہرست تیار کی گئی اور پھر یہ یقینی بنایا گیا کہ کوئی خامی ایسی نہ رہ جائے جس کی بدترین مثال قائم نہ ہو۔ سب نے مل جل کر ”کام “ کیا اور پھر ”مل جُل “ کر عنانِ حکومت اگلی باری والوں کے حوالے کر دی گئی۔
سابق حکومت کا آغاز بہرحال بڑا خوش کن تھا اور اس نے اچھی اچھی باتوں اورامید افزاء توقعات سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا لیکن مستقبل کے اس جمہوری تسلسل کا تو آغاز ہی گرہن زدہ ہے۔”فقیدالمثال “ فتح حاصل کرنے والے بڑی ”سیاسی پختگی“ کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن بات بن نہیں رہی۔ وہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کر رہے ہیں لیکن ”دھاندلی“ ، ”دھاندلی“ کا شور بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یہ ایسے منفرد انتخابات ہیں جن میں روایتی مقتدرہ قوتوں نے اپنے روایتی انداز میں دھاندلی نہیں کی لیکن ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے ریکارڈ توڑے ہیں۔ روایتی مقتدرہ قوتوں نے البتہ سب کچھ اپنے سامنے ہوتا ہوا ضرور دیکھا ہے لیکن اس دفعہ انہوں نے سیاسی معاملا ت سے مکمل ”لا تعلقی“ کا مظاہر کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جس کا جہاں زور چلا اس نے خوب دھاندلی کی۔ پہلے دھاندلی مقتدرہ قوتوں کے تعاون اور آشیر باد سے مخصوص سیاسی جماعتیں کیا کرتی تھیں، البتہ اس دفعہ ساری سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کے آزادانہ مواقع میسر تھے۔ بلوچستان میں کیا ہوا ، میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا البتہ باقی صوبوں میں جو کچھ ہوا واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے جو پچھلی حکومت میں اقتدار میں تھیں، اپنے اپنے زیر اثر صوبوں اور علاقوں میں کھل کر اپنا ”اثر و رسوخ“ اور ”رعب و دبدبہ“ استعمال کیا اور ضلعی انتظامیہ اور الیکشن کے عملے کو لالچ اور خوف کے ذریعے اپنا ہمنوا بنا کر میدان مار لیا۔ اس سارے کھیل کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان تحریکِ انصاف کو ہوا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اگر اس جماعت کا کہیں ”اثر و رسوخ “ یا ”رعب ودبدبہ “ہوتا تو اس کا رویہ بہتر ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کا کہیں بھی ”اثرو رسوخ “ نہیں تھا کیونکہ یہ کبھی برسرِاقتدار نہیں رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو بہت سی جگہوں سے خصوصاً شہری پنجاب اور شہری سندھ میں، اپنی جیتی ہوئی سیٹوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
عمران خان بار بار کہا کرتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کو کوئی دوسری سیاسی جماعت شکست نہیں دے سکتی البتہ یہ خود اپنے آپ کو شکست ضرور دے سکتی ہے ۔ عمران خان کی بات درست ثابت ہوئی۔ اگر دھاندلی کے نقصان کو نکال کر دیکھا جائے تو انتخابی معرکے میں تحریک ِانصاف نے خود اپنے آپ کو شکست دی ہے۔ تین چار سال پہلے جب عمران خان کی جدوجہد بار آور ثابت ہونا شروع ہوئی تو اچانک ان کو احساس ہوا کہ ان کے پاس ٹیم تو موجود ہی نہیں ۔ عوام کا اعتماد عمران خان پر دن بہ دن بڑھتا جا رہا تھا لیکن ان کو اپنے اردگرد حصار بنائے قریبی لوگوں کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا۔ نہ تو ان کی جدوجہد میں ساتھ چلنے والے لوگ وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بہتر بنا سکے اور نہ ہی خود عمران خان اس دور اندیشی کا مظاہرہ کر سکے کہ اپنے قریبی لوگوں کی کردار سازی کرتے ، ان کی نظریاتی تربیت کرتے اور ان کے اور اپنے درمیان موجود نظریاتی، اخلاقی اور کرشماتی فاصلے کو کم کرتے اور پھر عمران خان جس نظرئیے کی بات کرتے ہیں وہ نظریہ ہے کہاں۔ فرض کریں میں تحریکِ انصاف کا نظریہ جاننا چاہتا ہوں ، کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ یہ لو تحریکِ انصا ف کا نظریہ، پڑھ لو۔ فرض کریں میں تحریک ِ انصاف کے نظرئیے کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں ، کیا مجھے عمران خان کی ہزاروں تقریروں کا متن پڑھنا پڑے گا؟یا پھر مجھے عمران خان کے قریبی دوستوں سے ان سے منسوب روایات اکٹھی کرنی پڑیں گی یا پھر اسد عمر اور جہانگیر ترین کی پاور پوائنٹ پر دکھائی گئی مختلف پالیسیوں کو تحریکِ انصاف کا نظریہ سمجھنا چاہئے۔ قصہ مختصر جب عمران خان کو ایک ٹیم کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا ۔ دوسری طرف بہت سے ایسے ”قابل“ اور ”تجربہ کار“ سیاستدان جو اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں بے چینی کا شکار تھے ، عمران خان کی بڑھتی ہوئی عوامی پذیرائی میں امید کی ایک نئی کرن دیکھ رہے تھے۔ یہیں پر ”تبدیلی“ کے ارمانوں پر اوس پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ عمران خان کی” بہترین ٹیم“ تو بننا شروع ہو گئی لیکن ان کی بڑھتی ہوئی عوامی پذیرائی ہچکولے کھانے لگی۔ جن چہروں سے عوام نجات حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے وہی چہرے عمران خان کے اردگرد منڈلانے لگے۔ انہوں نے ایک طرف تو عمران خان کے ساتھ چلنے والے بُرے وقت کے ساتھیوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا ، جس میں وہ بہت جلد کامیاب ہو گئے اور دوسری طرف پاکستان بھر سے عمران خان کی طرف مائل ہونے والے مخلص اور ذہین لیکن ”نا تجربہ کار“لوگوں کا راستہ روک کر دوسری سیاسی جماعتوں کا کچرا مال اکٹھا کر کر کے عمران خان کی پریس کانفرنسیں کرانے لگے۔ آہستہ آہستہ تقریباً تمام اضلاع میں، کم از کم پنجاب کی حد تک ،مسترد شدہ کچرا مال تحریکِ انصا ف کے پرانے کارکنوں کو پیچھے دھکیل کر ضلعی رہنماؤں کا روپ دھار چکا تھا۔
9 مئی کی رات جب عمران خان اسپتال سے اپنے آخری انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران کہہ رہے تھے کہ یہ نہ دیکھنا کہ تحریکِ انصاف کا امیدوار کون ہے، نظرئیے کو ووٹ دینا، تو عمران خان کا ایک عقیدت مند ہونے کے باوجود میں حیران تھا کہ اگر لوگوں نے عمران خان کی بات مان لی تو تحریکِ انصاف کے یہ ”جعلی“ نظریاتی لوگ عمران خان، تحریکِ انصاف اور پاکستان کا کیا حال کریں گے۔ عمران خان کی ایسے لوگوں کو پارٹی میں جگہ دینے کی پالیسی کا نقصان پارٹی کے اصل نظریاتی لوگوں نے اٹھایا جن کا جیتنے کیلئے زیادہ انحصار پارٹی کے مجموعی عوامی تاثر پر تھا۔
ان سارے حالات میں فیصلہ کن کردار بین الاقوامی ”دوستوں“ نے ادا کیا جو عمران خان کے آزادانہ خیالات کو ”دوستی “ کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں اور آزمائے ہوئے دوستوں کو زیادہ کار آمد تصور کرتے ہیں۔
اب پاکستان کے سارے صوبوں اور مرکز میں دھاندلی زدہ سیاسی مینڈیٹ کی حکومتیں قائم ہونے کو ہیں، ماسوائے خیبرپختونخوا کے، جہاں عمران خان ایک ”مثالی“ اور ”ماڈل“ قسم کی حکومت بنانے والے ہیں ، جس کے سربراہ خیر سے عمران خان کی اپنے آپ کو خود شکست دینے والی پالیسی کے عین مطابق ایک انتہائی ”تجربہ کار“ اور ”جہاندیدہ “ شخص پرویز خٹک ہوں گے، جو صوبے کی ساری روایتی سیاسی جماعتوں کے گھاٹ کا پانی پینے والے ”کامیاب“ سیاستدان ہیں اور جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
میری طرف سے پاکستان کی اسٹیٹس کو کی قوتوں اور ان کے پاسبانانِ قلم کو یہ جمودی انقلاب مبارک ہو۔
تازہ ترین