• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کئی حوالوں سے تشویشناک بلکہ رلادینے والی ہے ۔

 پہلا، اس حوالے سے کہ کرپشن سے ہمارے دین نے منع فرمایا ہے اور رشوت لینے اور دینے والے کو دوزخی ہمارے نبیﷺ نے قرار دیا ہے لیکن دنیا کے بیس ممالک جو کرپشن سے نسبتا زیادہ پاک ہیں، ان میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں، اکیسویں نمبر پر ایک مسلمان ملک آتا ہے اور وہ متحدہ عرب امارات ہے ۔

دوسری افسوسناک بات یہ کہ دنیا کے ٹاپ چار کرپٹ ترین ممالک (جنوبی سوڈان، صومالیہ، شام اور یمن) مسلمان ممالک ہیں۔ جبکہ بحیثیت پاکستانی ہمارے لئے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے نام پر اقتدار میں آنے والی عمران خان کی حکومت میں گزشتہ سال کرپشن کی شرح میں تین درجے اضافہ ہوا تھا لیکن 2020میں،جبکہ اس نام پر مخالفین کی پکڑدھکڑ بہت زیادہ ہوگئی تھی میں مزید چار درجے اضافہ ہوا ۔

 کرپٹ اور چور مشہور کئے جانے والے مسلم لیگیوں کی حکومت میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوکر 117ہوگئی تھی اور کرپشن کی شرح میں کئی درجے کمی آئی تھی لیکن عمران خان کی حکومت کے پہلے سال میں کرپشن میں تین درجے اور دوسرے سال میں چار درجے اضافہ ہوا ۔

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پوزیشن 124ہوگئی۔ افسوس اور تشویش کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ کے دور میں پاکستان کی معیشت کا سائز بڑھ رہا تھا۔

 جی ڈی پی کی شرح پانچ فی صد سے اوپرتھی ۔ ترقیاتی کام جاری تھے ۔

 موٹروے اور میٹرو جیسے بڑے پروجیکٹس بن رہے تھے۔ یوں جب معیشت پھیل رہی ہو اور ترقیاتی عمل ہورہا ہو تو پاکستان جیسے ملکوں میں اس میں کرپشن بھی ضرور ہواکرتی ہے لیکن عمران خان کی حکومت میں معیشت سکڑ گئی۔

 جی ڈی پی کی شرح گر کر ایک فی صد تک آگئی۔ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یوں تو بغیر کسی کوشش کے بھی کرپشن کی شرح کم ہونی چاہئے تھی لیکن معیشت سکڑ گئی اور کرپشن حد سے بڑھ گئی۔ بحیثیت پاکستانی ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہم افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک سے معیشت کے تین معیارات پر نیچے گرگئے ۔ 

جب نواز شریف اور زرداری حکمران تھے تو دہشت گردی زوروں پر تھی اور پاکستان حالت جنگ میں تھا۔ یوں ظاہر ہے کہ دوران جنگ حکومتوں کی پہلی ترجیح امن وامان ہوا کرتا ہے ۔ 

عمران خان صاحب کو پاکستان ایک ایسی حالت میں ملا کہ الحمدللہ دہشت گردی کا جن بہت حد تک قابو میں آگیا تھا ۔ یوں وہ پوری توجہ معیشت پر مرکوز کرسکتے تھے لیکن عجیب اتفاق یہ ہے کہ افغانستان، جہاں جنگ میں شدت آئی ہے، کے اندر مہنگائی کی شرح تاریخ میں پہلی بار پاکستان سے کم اور بہت کم رہی ۔ 

اسی طرح تاریخ میں پہلی بار جنگ زدہ افغانستان کی جی ڈی پی کی شرح عمران خان کے نئے پاکستان سے بہتر رہی جبکہ کرپشن کے حوالے سے افغانستان کے چند پوائنٹ بہتر ہوگئے ہیں لیکن عمران خان کے پاکستان کی پوزیشن خراب ہوگئی۔ 

اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو ایسے حکمرانوں اور ترجمانوں سے واسطہ پڑا ہے کہ اب بھی انہوں نے مخالفین کے بارے میں چور چور کی دہائی بلند کررکھی ہے اورترجمان تو کیا وزیراعظم کی سطح پر یہ کہا گیا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کو سابقہ حکومت کے ادوار کےڈیٹا کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے، گویا اس کے ذمہ دار بھی نواز شریف ہیں ۔

 حالانکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے واضح کردیا ہے کہ آٹھ انٹرنیشنل ذرائع کا ڈیٹا استعمال ہواہے جن میں دو 2019اورچھ 2020کے اعداد و شمار پر مبنی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کرپشن کرپشن کا ورد کرنے والی اور اپنے سیاسی مخالفین کو چور مشہور کرنے والی پی ٹی آئی کی حکومت میں کرپشن کم ہونے کےبجائے کیوں بڑھی حالانکہ عام تاثر یہ ہے کہ ”بندہ“ خود ایماندار ہے۔ میرے نزدیک اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

پہلی بات یہ کہ اگر معیار جسٹس ثاقب نثار ہوں تو پھر تو بندہ صادق و امین اور ایماندار ہے لیکن اگر معیار زمینی حقائق ہوں تو پھر پیپلز پارٹی کی قیادت اور عمران خان میں صرف طریقۂ واردات کا فرق ہے ۔ 

اولذکر جو کچھ کرتے ہیں براہ راست کرتے ہیں لیکن خان صاحب کچھ بھی براہِ راست نہیں کرتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا کی بدترین کرپشن ، انٹلیکچوئل کرپشن ہے اور کرپشن کی یہ قسم پی ٹی آئی میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ اس تبدیلی کو لانے کے لئے صحافت اور عدالت تک میں انٹلیکچوئل کرپشن کو مزید پختہ کیا گیا ۔

 یوں جب معاشرے میں انٹلیکچوئل کرپشن عام ہو تو مالی کرپشن کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔تیسری بڑی وجہ یہ کہ ماضی قریب کی یہ واحد حکومت ہے کہ جس کے کارندوں کو نیب کا خوف ہے ، عدالت کا ، میڈیا اور نہ ایجنسیوں کی نگرانی کا ۔

 نیب ، میڈیا اور عدالت کو تو اس حکومت کو اقتدار میں لانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ 

پہلے میڈیا کوکسی اورجانب سے مثبت رپورٹنگ کا حکم تھا اور اب خود حکومت اس کو قابو کررہی ہے ۔ یوں اوپر سے نیچے تک جس بری طرح کرپشن ان دنوں ہورہی ہے ، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن پی ٹی آئی کا کمال یہ ہے کہ مخالفین کے بارے میں اس کا چور چور کا شور اس قدر زیادہ ہے کہ خود موجودہ حکومت کی چوری موضوع بحث ہی نہیں بن رہی ۔

کرپشن میں اضافے کی ایک اور وجہ اس حکومت میں شامل لوگوں کا ندیدہ پن بھی ہے ۔ بہت سارے ایسے لوگ وزیرمشیربنا دئیے گئے جنہوں نے یہ سب کچھ خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ 

وہ سمجھتے ہیں کہ پہلی اور آخری مرتبہ موقع ملا ہے لہٰذا جو کچھ کرنا ہے کرڈالو۔ اسی طرح بہت سے صرف حکمرانی کیلئے پاکستان آئے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے کرلو پھر ویسے بھی باہر چلے جانا ہے۔ 

ایک اور وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام پارٹیوں کے چور پی ٹی آئی حکومت کا حصہ بن گئے ہیں جبکہ بیوروکریسی میں تقرری و تنزلی رتی بھر میرٹ پر نہیں ہورہی۔ یوں جو پاکستان اس وقت ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔

تازہ ترین