• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

کہا جاتا ہے کہ امریکی حکومتوں کے آنے جانے سے امریکا کی مستقل پالیسیوں پرکوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر اسرائیل یا سعودی عرب کے ساتھ امریکیوں کے تاریخی تعلقات ہیں لہٰذایہ تو ہو سکتا ہے ان میں تھوڑی کمی بیشی ہو جائے کسی حکومت میں گرمجوشی بہت زیادہ ہو اور کسی دوسری حکومت میں اتنی زیادہ گرمجوشی نہ ہو لیکن سرد مہری یا خرابی کبھی نہیں آئی۔ ڈیمو کریٹ صدر اوباما کی ڈیموکریٹس گورنمنٹ نے اپنے صدارتی دورانیے کا آغاز ہی دورئہ سعودی عرب اور مصر سے کیا تھا، اسی طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن حکومت آئی تو انہوں نے بھی اپنے غیر ملکی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا بلکہ اس میں اپنے سعودی و امریکی اتحادی مسلم ممالک کی قیادتوں کو بھی بلایا گیا۔ صدر اوباما خود کو اسرائیل کا سب سے بڑا دوست اور ہمدرد کہا کرتے تھے لیکن صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے یعنی اسرائیل کو نوازنے کے لئے جو اقدامات کئے وہ ریکارڈ توڑ ہیں۔ انہوں نے جس طرح پہلے سے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی پر عمل درآمد کریں گےاِس پر انہوں نے یکطرفہ طور پر عملدرآمد بھی کر دکھایا۔ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لئے اپنے اتحادی عرب و اسلامی ممالک پر اپنی حکومت کے اختتام تک دبائو ڈالے رکھا، اس سلسلے میں انہیں کامیابیاں حاصل بھی ہوئیں۔ متحدہ عرب امارات، سلطنت ِعمان، بحرین، سوڈان،مصر، اردن اور ترکی جیسے ممالک اسرائیل دوست ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ سعودی عرب نے اگرچہ باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن خلیجی ممالک نے امریکا کے مطالبے پر جس طرح اسرائیل کو تسلیم کیا ہے یہ سعودیوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔ یہ سب واضح کرتا ہے کہ اندرونی تلخیاں ختم ہو کر اچھے تعلقات کا آغاز ہو چکا ہےجو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر منتج بھی ہو سکتا ہے۔

3؍ نومبر کو جونہی صدر ٹرمپ کو انتخابی معرکے میں شکست ہوئی تو عالمی میڈیا میں اس نوع کی خبریں نمودار ہوئیں کہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے اسرائیلی وزیراعظم اور سعودی کرائون پرنس کو خفیہ مقام پر ملاقات کا اہتمام کروایا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اِس کاوش کا مقصد یہ تھا کہ نو منتخب ڈیموکریٹ قیادت کے ساتھ دونوں ممالک نے ایران کے خلاف کیا مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ مسلم دہشت گردی یا انتہا پسندی کے خلاف زور دار نعرہ لگاتے ہوئے برسراقتدار آئے تھے، اس تناظر میں ان سے یہ توقع عبث تھی کہ وہ فلسطینیوں یا کشمیریوں کے لئے کسی نوع کی کوئی آواز اٹھائیں گے جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کشمیر ایشو پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کے لئے تیار ہیں تو صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ محض لپ سروس کر رہے ہیں مگر ہمارا یہ بھول پن تھا کہ ہم اس بیان کو بھی اپنی بہت بڑی کامیابی گرداننے لگے۔

امریکا میں پاکستان کے موجودہ سفیر ڈاکٹر اسد مجید خاں ہمارے پرانے دوست اور منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔ آج ہی اُن کے ساتھ درویش کی تفصیلی گفتگو ہوئی تو استفسار کیا کہ آپ ریپبلکن کے بالمقابل ڈیموکریٹس کی حالیہ فتح کو کس طرح دیکھتے ہیں بالخصوص انڈو پاک تعلقات کے حوالے سے؟ سفیر محترم بولے کہ امریکا سے ہمارے مراسم کی ایک طویل تاریخ ہے، ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس، یہ تعلقات دونوں سے بالاتر ہیں کیونکہ دونوں کے ادوار میں کوئی فرق نہیں رہا۔ نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن ماقبل نائب صدر کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور پاکستان سے خوب آگہی رکھتے ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں، کوئی تیس برس سےزیادہ عرصے تو وہ سینیٹر رہ چکے ہیں، ہم امریکا سے اپنے تعلقات کو دوسرے ممالک کے لینزز سے نہیں دیکھتے ۔ ہمارا سوال تھا کہ صدر جوبائیڈن کی جو ٹیم سامنے آ رہی ہے، اُس میں کوئی 18کے قریب بھارتی نژاد امریکی ہیں اس طرح اُن کی نائب صدر کملا دیوی ہیرس کا پس منظر بھی انڈین ہے اس لئے پاکستان میں عوامی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جوبائیڈن حکومت پاکستان کے حق میں بہتر نہیں ہو گی؟

ڈاکٹر اسد مجید خاں بولے یہ تاثر قطعاً درست نہیں ہے، آپ جانتے ہیں کہ امریکا تو ملک ہی آباد کاروں کا ہے یہاں ہر قوم نسل اور رنگ کا بندہ ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ امریکن چاہے برٹش پس منظر رکھتے ہوں یا انڈین افریقین، جب وہ پالیسی مشینری میں آتے ہیں تو وہ صرف امریکن ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ چائینز پس منظر کے بہت سے امریکی اہم ذمہ داریوں پر فائز ہیں تو کیا وہ چائینہ کے لئے کام کریں گے؟ وہ اپنی ذمہ داریاں امریکی پالیسیوں کی مطابقت میں ادا کریں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین