• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے اندر انڈر گراؤنڈ اکانومی، بلیک اکانومی، اور پیرالل اکانومی (parallel economy) کا بڑا ذکر ہوتا ہے. لیکن اس میں صرف اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، ڈرگ ڈیلرز، اسحلہ ڈیلرز، اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک وہ بزنس جو سب سے زیادہ منظم، متحرک اور غیر معمولی منافع حاصل کرتا ہے۔ لیکن نا تو وہ ڈاکیومینٹیڈ ہے نا ایک روپیہ ٹیکس دیتا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کا سب سے مظلوم اور محروم (بظاہر) طبقہ گردانا جاتا ہے۔ جی ہاں ذکر ہو رہا ہے "بھکاری بزنس" کا۔ آج تک کبھی بھی بھیکاری بزنس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ وہ بزنس ہے جس میں سب زیادہ افرادی قوت (labour) استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ مزدورں کے قوانین (labour laws) کا بری طرح پامال ہوتے ہیں۔ ایک دن کے بچے سے لیکر اسی نوے سال تک کی عمر کے لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ چھٹی کا کوئی دن نہیں ہوتا۔ اس بزنس کے مالکان کبھی سامنے نہیں آتے۔ بڑے پیمانے پر آمدنی حاصل کرتے ہیں لیکن اپنے لیبر کوئی اس آمدنی میں سے معمولی حصہ دیتے ہیں۔ صفائی ستھرائی یعنی صحت کے اصولوں کو خاطر میں نہیں لایا۔ جتنا گندہ لیبر اتنا اپنے مالک کا پسندیدہ۔ ایسے میں WHO کی بینائی بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ جسکو یہ تو نظر آتا ہے کہ کسی دور افتادہ علاقے میں پولیو کے جراثیم موجود ہیں لیکن معصوم بچے اور عورتیں گندے غلیظ حلیے میں سڑکوں پہ مارے مارے پھرتے ہیں، یہ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف انسانیت کی علمبردار تنظیم HUMAN RIGHTS COMMISSION بھی گویائی سے محروم ہے۔ اسے بالکل بھی اس بزنس میں

ہونے والی "انسانیت کی تذلیل" نظر نہیں آتی۔ کیسے چند دن اور چند ماہ کے بچوں کو بے ہوشی کے انجیکشن لگا کر عورتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے تاکہ لوگ رحم کھا کر بھیک دیں۔ یہاں بھی بات ختم۔نہیں ہوتی بلکہ معصوم بچوں کو اغوا کیا جاتا پھر ان کے ہاتھ پاؤں توڑکر یا جلا کر قابل رحم بنایا جاتا ہے تاکہ لوگ ان پر ترس کھائیں اور زیادہ سے زیادہ پیسے دیں۔ کیا اس سے انسانیت رسوا نہیں ہوتی؟ ایک اہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بزنس بڑے منظم، ایمانداری اور با اصول طریقے سے چلتا ہے۔ ہر لیبر کے اوقات کار طے ہیں۔ صبح صبح سب اپنی جگہہ موجود ہوتے ہیں۔ طے شدہ اوقات کار کے مطابق سب کی ڈیوٹیز بدلتی ہیں۔ اور اگلی شفٹ کے لیبرز مقررہ وقت پر حاضر ہو جاتے ہیں۔ فری اور مستعد ٹرانسپورٹیشن فراہم کی جاتی۔کسی لیبر کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنی جگہہ کچھ دیر کے لیے بھی چھوڑ سکے۔ بڑا مضبوط مانیٹرنگ سسٹم ہے اس بزنس میں۔ نا کسی مزدور کو نکالا جاتا ہے نا ہی کوئی مزدور اپنی لاکھ خواہش کے باوجود اس نوکری کو چھوڑ سکتا ہے۔یہ کوئی راز نہیں، پر جاننے کے باوجود اب تک اس بزنس کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ جبکہ اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسانی ذہن کہاں سے کہاں جاچکا ہے۔ ہم اپنے ملک میں اس برے طریقے سے ہونے والی انسانیت کی تذلیل پر خاموش ہیں۔ ناصرف خاموش میں بلکہ اس افسوس ناک عمل میں کار خیر کے طور پر اپنا حصہ مکمل طور پر ڈال رہے ہیں۔ کیا بچوں کو ڈھال بنا کر بھیک مانگنا انتہائی سفاکانہ عمل نہیں، کیا شیرخوار بچوں کو بے ہوشی کی دوا پلا کر دھوپ، سردی،بارش، کا لحاظ کئے بغیر سڑک پر مارے مارے پھرتے رہنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ میلینئم ڈیولپمنٹ گولز اور سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز میں پرائمری سطح پہ سو فیصد شرح خواندگی کی شرط، کیا یہ سڑک پر پھرتے معصوم بچوں کے لئے لاگو نہیں ہوتی؟ ذرا سوچئے کہ ہم اخلاقی پستی کی کس گہرائی میں گھرے ہوئے ہیں ۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین