• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے گزشتہ روز اسلام آباد میں جنگ گروپ کے زیراہتمام پری بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے ابتدائی ڈھائی برسوں میں قومی معیشت کو انحطاط سے نکالنے اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات اور ان کے نتائج پرروشنی ڈالتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مشکل فیصلوں کے نتیجے میں آج ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی قیادت میں اقتدار سنبھالا تو ملک کو معیشت، توانائی اور سیکورٹی کے سنگین چیلنجوں کا سامنا تھا۔دنیا نے پاکستان کے ساتھ کاروبار بند کردیا تھا اورزرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہوچکے تھے۔ملک پر اڑتالیس ارب ڈالر کا قرضہ تھا اور آئی ایم ایف نے بھی جواب دے دیا تھا۔ مالیاتی خسارہ آٹھ اعشاریہ آٹھ فی صد تک پہنچ چکا تھا اور عالمی سطح پر جون2014ء میں پاکستان کے دیوالیہ ہوجانے کی پیشین گوئیاں کی جارہی تھیں۔پانچ سو تین ارب کا گردشی قرضہ تھا اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ چودہ سے سولہ گھنٹے تک جاپہنچا تھا۔ وزیر خزانہ کے بقول ہم نے اللہ کا نام لے کرکام شروع کیا اور کئی مشکل فیصلے بھی کئے جن کے بغیرحالات بہتر نہیں ہوسکتے تھے۔جناب اسحق ڈار نے بتایا کہ پہلے سال میں معیشت کی سمت درست کرنے پر توجہ دی گئی،لوڈ شیڈنگ میں فوری کمی کیلئے آئی پی پیز کو پانچ سو تین ارب کے واجبات ادا کئے گئے،توانائی کیلئے جامع منصوبہ بنایا گیاجس کے نتیجے میں مارچ 2018ء تک دس ہزار میگا واٹ مزید بجلی سسٹم میں آجائے گی ۔وزیر خزانہ نے سیکورٹی کے حوالے وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا ذکر کیا جس کیلئے230ارب روپے کی فراہمی کی منصوبہ بندی کی گئی۔ کراچی میں امن کیلئے2014ء میں آپریشن شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں آج ملک کے اس اقتصادی مرکز میں کاروباری سرگرمیاں اور معمولات زندگی کئی عشروں کے بعد پوری طرح بحال ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کے تعلق سے وزیر خزانہ نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ یہ اضافہ بیرونی قرضوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ حکومت نے پندرہ ارب ڈالر کے نئے قرضے لیے جبکہ دس ار ب ڈالر کے پرانے قرضے واپس کئے۔ آنے والے دنوں کی معاشی حکمت عملی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ معاشی استحکام کے بعد اب حکومت کی پوری توجہ روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے معاشی ترقی کے شرح میں اضافے پر ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے ڈھائی سال پہلے اور آج کی ملکی صورت حال کا جو تجزیہ پیش کیا ہے، اس کے ثبوت و شواہد اتنے واضح ہیں کہ کسی بھی انصاف پسند شخص کیلئے اسے جھٹلانا مشکل ہے۔ امن وامان، معاشی سرگرمیوں اور توانائی کے حوالے سے جو نمایاں بہتری اس مدت میں آئی ہے اسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ تاہم جمہوری نظام میں حکومت کے اقدامات اور فیصلوں پر تنقید کا مکمل حق بہرحال حکومت کے سیاسی مخالفین کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس حق کے استعمال میں یہ احتیاط ضرور ملحوظ رکھی جانی چاہیے کہ حکومت مخالف سیاسی مہم جوئیاں قومی مفادات کو مجروح کرنے کا سبب نہ بننے پائیں ۔ تمام مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف کی جانب سے اس کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔ معیشت ، تعلیم اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کیلئے قومی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں جن کے بنیادی اصولوں پر حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ ہمارے ملک میں بالعموم ’’ہر کہ آمد عمارت نوساخت‘‘ کے مصداق ہر حکومت اپنے پیشرو کی پالیسیوں کو مسترد کرکے نئی پالیسی سازی کرتی ہے جس کے نتیجے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کا سفر ازسرنو صفر سے شروع ہوتا ہے۔جناب اسحق ڈار اسی تناظر میں بارہا قومی میثاق معیشت کی تشکیل پر زور دیتے رہے ہیں۔ ہموار قومی ترقی کیلئے یہ میثاق ناگزیر ہے لہٰذا ملک کی پوری سیاسی قیادت کی جانب سے اس تجویز کو عملی شکل دینے کیلئے جلد از جلد نتیجہ خیز پیش رفت کی جانی چاہیے۔حکومت کو حزب اختلاف سے باضابطہ رابطہ کرکے اس میثاق کی تیاری کیلئے مشاورت اور عملی اقدامات کا آغاز کرنا چاہئے۔
تازہ ترین