• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیر کے لوگوں کی خوراک میں آٹے اور سبزیوں کے بعد سب سے زیادہ دالیں استعمال ہوتی ہیں اور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اس کا بطور خاص ذکر کیا ہے ۔ کمپنی کی حکومت اور تاج برطانیہ کے عہد میں گندم اور آٹے کی قیمت کو اعتدال پر رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی کیونکہ یہ دوسری اشیاء کے نرخوں کو اعتدال پر رکھنے کیلئے ایک معیار کا کام دیتی تھی۔ تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان میں طویل عرصے تک یہی صورتحال قائم رہی لیکن اب روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیاء کے نرخوں کے تعین کا پیمانہ بدل گیا ہے اور پہلے جو حیثیت گندم کو حاصل تھی وہ اب کافی حد تک پٹرول نے لے لی ہے۔ گزشتہ قریباً دس برس میں پٹرول کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی تھیں لیکن اب لگ بھگ ایک سال سے ان کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باوجود عوام کے روزانہ استعمال میں آنے والی اشیاء خاص طور پر غذائی اشیاء کے نرخوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان میں اتنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کہ حکومت کو اس کے سدباب کیلئے خصوصی ا قدامات کرنے ہوں گے۔ تھوک مارکیٹ میں مرغی کے نرخوں میں ہی ہوشربا اضافہ نہیں ہوا دالوں کی قیمتوں میں بھی30سے50روپے تک کا اضافہ دیکھنے آرہا ہے۔ ماش کی دال 2سو روپے فی کلو کی حدود کو پھلانگ کر مزید آگے جارہی ہے، کالا چنا125روپے اور کابلی چنا170روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تھوک مارکیٹ کی صورتحال ہے، پرچون فروش اپنی من مرضی کے نرخ وصول کررہے ہیں۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں فوڈ باسکٹ کا خیال رکھا جاتا ہے اور روزمرہ استعمال میں آنے والی چیزوں کے نرخوں کو بڑھنے نہیں دیا جاتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال رمضان سے پہلے ناجائز منافع خوروں کی طرف سے کی جانے والی ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے جبکہ تاجروں کا کہنا ہے کہ بروقت چین اور دوسرے ممالک سے دالیں نہ منگوانے کی وجہ سے گرانی کی یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو حکومت اور ایکنک کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور کم از کم دال تو مہنگی نہیں کی جانی چاہئے۔
تازہ ترین