• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجب معاملہ ہے ایک نئی بحث ہورہی ہے کہ پاکستان کی فوج کے کماندار نے ایک عسکری تقریب میں جو تقریر کی۔ اس میں کرپشن کے حوالے سے فوج کی تشویش کا اظہار کیا گیا اور عزم کا اظہار کیا کہ فوج ملک عزیز میں کرپشن کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے۔ اب ملک بھر میں میڈیا پر کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آرمی چیف نے آئینی حدود کا خیال نہیں کیا۔ کیا پاکستان کا آئین کسی بھی پاکستانی شہری پر کوئی ایسی قدغن لگاتا ہے کہ وہ اظہار رائے بھی نہ کرسکے۔ ملک بھر میں ایک اہم سوال سب لوگ ایک دوسرے سے کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت وقت کرپشن کے خاتمے کیلئے کیا کردار ادا کر رہی ہے۔ اصل میں دعوے اور حقیقت کا فرق ہی ایک اہم سوال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک بھر میں کئی سرکاری ادارے کرپشن کے خاتمہ کیلئے کار سر کار کے ہمنوا ضرور ہیں اور عملی طورپر ان کا کردار بہت ہی مشکوک سا نظر آتا ہے۔ایک بہت ہی اہم سینیٹر جناب مشاہد حسین جو حسن اتفاق سے میڈیا سے بھی تعلق رکھتے ہیں وہ میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان کے گزشتہ دور حکومت میں ایک نعرہ مستانہ بلند کرتے تھے۔ وہ اس زمانہ میں اپنی حریف سیاسی جماعت کے کردار کے بارے میں یہ کہتے تھے ’’لوٹو اور پھوٹو‘‘ پھر جب میاں نوازشریف دوستوں اور مہربانوں کی وجہ سے سعودی عرب چلے گئے تو سید مشاہد حسین نے ترقی پسند ہونے کے باوجود مسلم لیگ (چوہدری برادران) میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ بیک وقت مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی دونوں کیلئے قابل قبول نہ تھے۔ ان کی سیاست کا ایک علیحدہ رنگ ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین کا نعرہ مستانہ ’’لوٹو اور پھوٹو‘‘ بھی متروک ہوا۔اب ملک بھر میں ایک دفعہ پھر پاناما لیکس کی وجہ سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے مختلف سیاسی جماعتیں صلاح مشورہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی مشاورت اور سیاست جمہوریت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ پھر ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس اہم مسئلہ پر ابھی تک اپنے کردار کا تعین بھی نہیں کیا۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کو ابھی تک قلق اور شرمندگی ہے کہ انہوں نے آئین کی ترمیم میں ضمیر کی آواز پر اپنی رائے کیوں نہیں دی۔ مگر ملک بھر میں کرپشن اور بدانتظامی پر ان کے ضمیر کی رائے کا اظہار خاموش ہے۔ وہ مغربی جمہوریت کے بہت خیرخواہ ہیں۔ مگر ان کی اپنی پارٹی پیپلز پارٹی میں جمہوری طور طریقے نظر نہیں آتے۔
جب پاکستان میں کرپشن کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے تو اکثر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے بیان آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ نظام جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کرپشن جمہوری دور حکومت میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔ کرپشن کا ناسور کسی نظام حکومت میں اشرافیہ اور سیاسی لوگوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے اپنی حیثیت منوا لیتا ہے اور وہ کرپشن نہیں ہوتی، بلکہ وہ لوگ زیادہ معتبر طریقے سے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں آج تک کرپشن کے حوالے سے کسی حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ آج جب کرپشن کے خاتمہ کیلئے کپتان عمران خان آواز بلند کرتا ہے تو ہمارے وزیر صاحبان کے نزدیک کرپشن کے خاتمہ کی تحریک میں سیاست نظر آنے لگتی ہے۔ سب سے تکلیف دہ عمل یہ ہے کہ ہماری سرکار، آئین میں درج فرمودات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ سپریم کورٹ کئی مقدمات میں حکومت کو بتا چکی ہے کہ لوٹ مار اور کرپشن کے معاملات میں سزا کا معاملہ سرکار کا ہے اور سرکار کو اپنا کردار ادا کرنے میں کیوں شرمندگی ہے۔ اگر کوئی رکن قومی اسمبلی ان شرائط پر پورا نہیں اترتا جو آئین میں درج ہیں تو بھی سرکار خاموش رہتی ہے۔ چند دن پہلے ہی جنرل مشرف سابق صدر پاکستان کے معاملہ پر ملک کی اعلیٰ عدالت نے فیصلہ دیا کہ جنرل مشرف کے باہر جانے اور علاج کروانے کے مسئلہ پر فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔ مگر حکومتی لوگ برملا کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے۔ کرپشن کے معاملہ پر طے ہونا باقی ہے کہ ملک سے پیسہ ٹیکس ادا کیے بغیر رکھنا کیا کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا سرکار کو حق حاصل ہے کہ وہ معلوم کرسکے کہ کسی شخص یا ادارے کی آمدنی جائز طریقہ سے حاصل کی گئی ہے۔ پانامہ لیکس میں جن پاکستانیوں کا ذکر ہے ان سے کون سا پاکستانی سرکاری ادارہ تحقیق کرسکتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملکی نظام ہی کرپشن کو فروغ دے رہا ہے۔ ترقیاتی کاموں میں جو رقم لگائی جاتی ہے وہ اکثر خوردبرد ہو جاتی ہے۔ سرکاری مشینری ہر کام کے اندر اپنا حصہ لیتی ہے۔ تھانہ ہو کچہری ہو ہر جگہ کار سرکار کے کارندوں کی خدمت ضروری ہے اور اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں۔ اب سند ھ میں رینجرز دہشت گردی ، بھتہ مافیا اور کرپشن کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے کیس میں سندھ سرکار ان الزامات کو ماننے پر تیار نہیں۔ ایسے میں کرپشن کے خلاف کارروائی کیسے کامیاب ہوسکتی ہے۔
پنجاب میں تھانوں میں جوکچھ ہورہا ہے نچلے درجہ کی سرکاری عدالتوں میں جو طریقہ کار ہے وکیل حضرات جس طریقہ سے عدالتی نظام میں مداخلت کرتے ہیں کیا وہ سب کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہماری سرکار اس وقت بھی گومگو کی کیفیت کا شکار ہے۔ اگر فوج کے سربراہ نے کرپشن کے خاتمہ کے حوالہ سے عسکری تقریب میں کوئی بات کی ہے تو وہ غیر مناسب بھی نہیں۔ ہماری فوج کے جوان او ر آفیسر بھی پاکستانی شہری ہیں اور ان میں اکثر اپنے گھروں سے دور وطن عزیز کے دفاع میں مصروف ہیں۔ ان کو خوب اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں لوگ کیا سوچتے ہیں اور سرکاری ادارے کتنے شفاف ہیں۔ ملک میں سزا کا نظام صرف عدلیہ سے وابستہ ہے جو کہ ایک غلط تاثر ہے۔ جرم اور سزا کے سلسلہ میں اہم کردار ملکی نظام میں سرکار ہے۔ مگر سرکار کسی کی بھی ہو ان سب کا کردار کبھی قابل عمل نظر نہیں آیا۔
اب ہماری عوامی سرکار کا نیا نعرہ ہے جمہوریت کے تسلسل کیلئے احتساب ضروری ہے۔ مگر اب تک احتساب کے سلسلہ میں نیب نے میگا اسکینڈلز پر کوئی کارروائی نہیں کی ہے بلکہ عدالتوں میں عدم ثبوت اور بدانتظامی کی وجہ سےاحتساب بھی بے بسی کا شکار ہے۔ ملک کی اسمبلی اور سینیٹ کی کئی کمیٹیاں بھی کچھ ایسا کردار ادا کرنے کیلئے اجلاس بلاتی رہتی ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں۔ یہ ملک کی بدنصیبی ہے یا عوام کی قسمت خراب ہے کہ وہ جن لوگوں کو جمہوریت کی حفاظت کیلئے منتخب کرتے ہیں۔ وہ ہی جمہور پر جمہوریت کے ذریعہ زندگی تنگ کر دیتے ہیں۔ کیا اس جمہوریت نے ملک میں صحت اور تعلیم کی ضمانت دی۔ جبکہ ملک کا آئین سرکار کو پابند کرتا ہے کہ وہ عوام کو علاج اور تعلیم دینے کی پابند ہیں۔ جب ملک کا وزیراعظم علاج کیلئے ملک سے باہر جانا پسند کرے تو عوام کا حال کون پوچھ سکتا ہے۔
ہمارے اہم سیاسی لوگ اس وقت ایک ہی کشتی میں سوار ہیں جو کرپشن کے طوفان میں پھنسی نظر آرہی ہے۔ اہم لوگ تحقیق کیلئے تیار نہیں اس مسئلہ پر سرکار کی خاموشی خاصی پراسرار ہے۔ جمہوریت نے سرکاری اداروں کی آزادی سلب کررکھی ہے اگر ملک کے سرکاری ادارے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیں تو ہماری اشرافیہ اور سیاسی لوگ ہیرو سے زیرو ہو جائیں گے۔ مگر جمہوریت کے محل میں بیٹھ کر عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، میاں نوازشریف کی سرکار اس وقت کرپشن کے معاملات اور قرضوں کی وجہ سے شدید دبائو کا شکار ہے۔ سرکار کی خواہش ہے کہ کوئی ایسا تحقیقاتی فورم بن جائے جو اس معاملہ کو کچھ عرصہ کیلئے ٹال دے۔ اس معاملہ پر سابق صدر آصف زرداری بہت سرگرم عمل ہیں۔ وہ رحمان ملک کے ذریعے میاں نوازشریف اور اسحاق ڈار سے باہمی مفادات کیلئے یکسو ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کو اندازہ ہے کہ اس طرح سے پارٹی بالکل ہی ختم ہو جائے گی۔ وہ بھی کرپشن کے معاملہ پر شفاف تحقیق پر توجہ دے رہے ہیں۔ اگر اب کرپشن کا معاملہ نظر انداز ہوا تو دہشت گردی کی جنگ جیتنی مشکل ہو جائے گی۔ کرپشن کی وجہ سے دہشت گرد سرگرم عمل رہتے ہیں۔ فوج کیلئے سب سے لڑنا مشکل ہے۔ وہ کرپشن میں ملوث لوگوں کا بتا سکتی ہے حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ اب یا کبھی نہیں۔
تازہ ترین