احساس، کسی بھی اصلاحِ احوال کے لئے سوچ بچار اور اقدام کا پہلا زینہ ہے۔ 11مئی کی بڑی انتخابی کامیابی کے بعد لاہور میں میاں نوازشریف سے ملاقات ہوئی تو یہ احساس نہ صرف ان کی گفتگو کے ایک ایک لفظ سے ٹپک رہا تھا بلکہ ان کے چہرے پہ بھی سرمئی شام کی طرح بکھرا جارہا تھا۔ اس احساس کی جھلک میں نے پہلے بھی کئی بار دیکھی۔ انہوں نے بارہا دکھ سے بوجھل انداز میں کہا کہ ”کاش زرداری صاحب ملک کی حالت بدلنے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے ہمارے پُرخلوص اور غیرمشروط تعاون کا ہاتھ نہ جھٹکتے۔ ہمیں کچھ نہیں چاہئے تھا، وزارتیں بھی نہیں۔ ہم تو پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔ میں نے بارہا بڑی دردمندی سے یہ سب کچھ کہا۔ اپنی سیاسی مقبولیت کو داؤ پر لگاتے ہوئے مذاکرات کئے۔ حالات کی بہتری کے لئے ایک جامع ایجنڈا دیا۔ میثاق پاکستان کا تصور پیش کیا لیکن ہماری ہر پیشکش کو حیلوں بہانوں سے ٹھکرا دیا گیا“ احساس کی یہ خلش میاں صاحب کے دل میں یوں رچ بس گئی تھی کہ وہ اپنے ملنے والوں سے بڑے تواتر کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔
اب یہ احساس ان کے چہرے پہ تنبو تانے ہوئے تھا۔ ان کی بدن بولی کے ہر زوایئے سے آشکار ہورہا تھا۔ مبارکبادیں وصول کرتے ہوئے ان کے ہونٹوں پہ پھیلی مسکراہٹ میں اس احساس کی جھلک نمایاں تھی۔ 12مئی سے ہی انہوں نے کارِآشیاں بندی کے لئے کام شروع کردیا۔ مشاورت، فنی ماہرین کی بریفنگز، ایک اچھی ٹیم کے انتخاب کے لئے کمیٹیوں کا تقرر، بجٹ کی تیاری، تہ در تہ پھیلے بحرانوں کے لئے فوری، درمیانی مدت اور طویل المیعادی اقدامات، توانائی کے بحران نے ان کے اعصاب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی وہ شدید گرمی میں بلکتے اہل وطن کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے سکیں۔ ان کے سامنے وطن عزیز کے دامانِ تار تار کی دھجیاں بکھری پڑی ہیں۔ جس شعبے کے بارے میں معلومات لیتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ نااہلیت اور پرلے درجے کی کرپشن نے سب کچھ اجاڑ دیا ہے۔ جس محکمے کی کارکردگی پر بریفنگ لیتے ہیں، خانہ ویرانی کے المیے ان کے احساس کی لَو اور تیز کردیتے ہیں۔
تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم
”سارا بدن ہی زخم زخم ہوچکا ہے۔ روئی کے پھائے کہاں کہاں رکھوں“۔ لیکن نواز شریف کو اپنے لہو کی ایک ایک بوند کی توانائی سمیٹ کر یہ کام کرنا ہوگا۔ قدرت نے انہیں ایک ایسے وقت میں پاکستان کی مسیحائی کی ذمہ داری سونپی ہے جب ملک کی کشتی شدید ترین بحرانوں کے گرداب میں پھنسی ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا ”عوامی شعور کبھی غلطی نہیں کرتا“۔ پاکستانی عوام کے اجتماعی شعور نے زبردست احساس ذمہ داری کے ساتھ بڑا واضح اور دو ٹوک فیصلہ دیا ہے۔ ان کے سامنے تین آپشنز تھے۔ پہلا یہ کہ وہ بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر کے قتل کو اپنا اثاثہ سیاست بنا لینے اور آنسوؤں کو اشتہاری نوحوں میں ڈھال کر ووٹ مانگنے والی اس جماعت کو پھر سے اقتدار میں لے آئیں جس نے پاکستان کو اجاڑ کے رکھ دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ تبدیلی اور انقلاب کی پرچم بردار اس جماعت کو اقتدار سونپ دیں جو کوئی معتبر متبادل پروگرام نہیں دے سکی اور جس کی زنبیل میں حریفوں کے لئے سنگ الزام اور تیر دشنام کے سوا کوئی نسخہ کیمیا نہیں۔ تیسرا یہ کہ وہ نواز شریف کو ایک اور موقع دیں جس کے دو ادھورے ادوار دوسروں کی پندرہ سالہ حکمرانی پہ بھاری ہیں اور جس کی جماعت نے گزشتہ پانچ برس کے دوران پنجاب کو نہ صرف کرپشن فری حکمرانی دی بلکہ تعمیر و ترقی کا ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ طرفہ تماشا یہ کہ کم و بیش ساری سیاسی قوتیں ایک نکتے پہ متفق ہوگئیں۔ انہوں نے اپنی اپنی کمین گاہوں میں مورچے لگائے اور نواز شریف کو نشانے پہ دھرلیا۔ میڈیا بھی دولت کی رو میں بہہ کر اسی لشکر جرار کا حصہ بن گیا۔ دانشوروں کے قلم بھی پھن پھیلا کر زہریلی سسکاریاں بھرنے لگے۔ عوام صبر و تحمل سے سب کچھ دیکھتے رہے۔ 11مئی کی صبح وہ گھروں سے نکلے، سارے لشکروں کو روندتے پولنگ اسٹیشنوں پہ پہنچے اور نواز شریف کو اپنا رہنما چن لیا۔جس مسلم لیگ (ن) کو 2008ء کے انتخابات میں 6780000 ووٹ ملے تھے اب کے اسے ایک کروڑ انچاس لاکھ ووٹ ملے جو 119 فی صد زائد تھے۔ اہل وطن نے نواز شریف کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے اسے بیساکھیوں سے بھی آزاد کردیا۔ پنجاب میں اس کی جماعت تین چوتھائی تعداد کو چھو رہی ہے۔ وفاق میں اس کی باضابطہ تعداد 150 ہو چکی ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کے بعد مسلم لیگ (ن) دو سو کی حد چھونے لگے گی۔
یہی ہے احساس ذمہ داری کا وہ بارِگراں جو نواز شریف کے چہرے سے عیاں ہے۔ جوں جوں گزشتہ حکومت کی کارستانیاں کھل رہی ہیں، میاں صاحب کی سنجیدگی بڑھ رہی ہے۔ یہ کتھا عوام کے سامنے آئے گی تو وہ تصویر حیرت بنے رہ جائیں گے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم نے صرف ایک جھلک پیش کی ہے۔ وفاقی وزارت اطلاعات کے دو بھونپو، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نو ارب روپے سالانہ ہڑپ کررہے ہیں۔ اربوں روپے اس کے صوابدیدی فنڈ کی نذر ہو رہے ہیں۔ کابینہ ڈویژن کا روزانہ خرچہ 8کروڑ روپے ہے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ کا روزانہ بجٹ بیس لاکھ روپے ہے۔ ایوان صدر ہر روز 13لاکھ روپے خرچ کررہا ہے۔ وزیراعظم کے بے ہنگم اور بے مقصد بیرونی دورے ہر روز 50لاکھ روپے میں پڑرہے ہیں۔ پاکستان ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز، پیپکو، پاسکو اور یوٹیلیٹی اسٹورز کا خسارا سالانہ 360/ارب روپے کو چھو رہا ہے۔ یہ رقم روزانہ ایک سو کروڑ روپے بنتی ہے۔ پی آئی اے روزانہ 7کروڑ اور ریلوے روزانہ 5کروڑ روپے ہڑپ کررہے ہیں۔ ریلوے اس وقت 48/ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ سولہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے ملکی خزانے میں صرف دس گیارہ ارب ڈالر پڑے ہیں اور توانائی کا بحران عفریت کی طرح چنگھاڑ رہا ہے۔
یہ تصویر کی معمولی سی جھلک ہے۔ کرپشن کا باب سیاہ کھلا تو درو دیوار لرز جائیں گے۔ نواز شریف کے چہرے پہ گہرے احساس اور تفکر کی شکنیں اس امر کی نشاندہی کررہی ہیں کہ انہیں کٹھن امتحان کا اندازہ ہے۔ انہیں یہ بھی خبر ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ ان بحرانوں پہ مرکوز نہ رکھ سکیں گے کہ فتنہ پروروں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی ہے نہ اہل پاکستان سے کوئی ہمدردی، وہ بدستور تلاطم بپا رکھیں گے۔ انتخابات سے قبل یکجا ہوجانے والی قوتیں، عوام کے فیصلے کو سچے دل سے قبول کرنے کے بجائے، شرانگیزی اور انتشار کے الاؤ بھڑکاتی رہیں گی۔ دہشت گردی ایک مسئلہ نہیں رہے گی۔ امریکہ سے تعلقات میں چنگاریاں سلگتی رہیں گی۔ معیشت کی بربادی مسائل پیدا کرتی رہے گی اور نواز دشمن قوتیں یہ سوچے بغیر اپنا ہنر آزماتی رہیں گی کہ نواز دشمنی کی حدیں ملک دشمنی تک جاپہنچی ہیں۔
نواز شریف کو اس سب کچھ کے باوجود پوری قوت اور توانائی کے ساتھ وطن عزیز کو بحرانوں کے بھنور سے نکالنے کی پُرعزم کوشش کرنا ہوگی۔ اللہ نے اسے یہ موقع دیا ہے اور پاکستان کے عوام کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں کئی خواب تو دینے لگے ہیں۔ ان کے اجتماعی شعور نے فیصلہ دے دیا ہے۔ میاں صاحب کو اس فیصلے کی لاج رکھنا ہوگی۔ ان کا احساس، ان کے اقدامات میں جھلکنے لگا تو عوام ان کی فولادی فصیل بن جائیں گے اور فتنہ پروروں کے لشکروں پہ وہی گزرے گی جو 11مئی کو گزری تھی۔