• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور میں کبھی فلموں کی پبلسٹی کا موثر ترین ذریعہ تانگے ہوتے تھے۔ تانگے کے پچھلی طرف بڑا سا کپڑے کا بورڈ اور دونوں سائیڈز پر چھوٹے چھوٹے دو بورڈز لگا دئیے جاتے تھے۔ یہ تانگہ پورے شہر کا چکر لگایا کرتا تھا بلکہ جن اسکولوں میں بچوں کو لانے کے لئے والدین نے تانگے لگوائے ہوئے تھے، یہ تانگے جب اسکول میں آتے تھے تو بچے شور مچایا کرتے تھے کیونکہ انگریزی فلموں کے پوسٹرز بعض اوقات قابل اعتراض ہوتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی ڈھول والا اور گھنٹی والا بھی ان تانگوں میں ہوتا تھا جو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ڈھول اور گھنٹی بھی بجایا کرتا تھا۔ پھر بعض تانگوں پر لائوڈ اسپیکر بھی ہوتا تھا جس پر کوچوان خود یا کوئی اور فلم کے بارے میں اعلان کیا کرتا تھا۔

لکشمی چوک اور رائل پارک لاہور کی بڑی تاریخی جگہیں ہیں۔ یہاں کبھی فلم سازوں، ڈسٹری بیوٹرز اور ہدایت کاروں کے دفاتر بڑی تعداد میں ہوا کرتے تھے اور ہر عمارت فلموں کے بڑے بڑے بورڈوں سے بھری ہوتی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں محکمہ خوراک کے اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر کا آفس پچاس برس سے زائد رہا۔ اوپر محکمہ خوراک کا آفس اور نیچے فلم سازوں اور فلموں کے تقسیم کنندگان کے دفاتر۔ نئے نئے اداکار بننے کے شوقین لڑکے اور لڑکیاں اکثر یہاں آتے رہتے تھے۔ پان کی دکانیں، چرغے، نان چنے، حلوہ پوری، دودھ دہی اور کلچوں کی دکانیں آج بھی موجود ہیں مگر اب ان میں وہ مزہ نہیں۔ اب فلموں کے صرف دوچار دفاتر ہی رہ گئے ہیں۔ رائل پارک اب پرنٹنگ پریسوں، کاغذ اور گتے کی دکانوں کا بازار بن گیا ہے۔ 1935ء میں رائل سرکس کی وجہ سے اس علاقے کا نام رائل پارک پڑ گیا تھا۔ پہلے یہ ایک ٹیلہ تھا۔ کبھی ماضی کے مزاحیہ اداکار رنگیلا یہاں فلموں کے بورڈ بھی پینٹ کیا کرتے تھے اور کبھی ماضی کے معروف اداکار محمد اجمل (فلم ہیر رانجھا میں کیدو کا کردار ادا کرنے والے) لکشمی چوک کے قریب قیصر سینما میں آخری دنوں میں گیٹ کیپری بھی کرتے رہے۔ بھارتی اداکار بھرت بھوشن نے بھی اپنے آخری دنوں میں ایک اسٹوڈیو میں گیٹ کیپری کی تھی۔

پاکستان میں جب معیاری فلمیں بننا بند ہو گئیں تو پھر اسٹوڈیوز اور فلموں کے دفاتر کے رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ لاہور کے شاہی محلے نے پاکستان کی فلم انڈسٹری، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کو بے شمار اداکار، اداکارائیں، گانے اور گانے والیاں دی ہیں۔ کبھی یہ علاقہ بڑا آباد اور پُررونق تھا۔ اب تو فوڈ اسٹریٹ بن چکا ہے۔ شاہی محلے میں سب سے پہلا ریسٹورنٹ میو اسکول آف آرٹس (نیشنل کالج آف آرٹس) کے معروف مصور اقبال حسین نے اپنے گھر میں ککوز کے نام سے قائم کیا تھا۔ اقبال حسین کا تعلق شاہی محلے سے ہے اور انہوں نے اندرون شہر کی بڑی خوبصورت پینٹنگز بنائی ہیں۔ اس ریسٹورنٹ کے اوپر ان کی رہائش ہے۔ بڑا روایتی مکان ہے۔ ان کے ریسٹورنٹ کے بعد شاہی محلے میں کئی اور مکانوں میں ہوٹل بن گئے۔ اب یہاں بہت بڑی فوڈ اسٹریٹ بن گئی ہے، مکانوں کی قیمت کئی کئی کروڑ ہو چکی ہے۔ وہ علاقہ جہاں کبھی کوئی مکان خریدنا پسند نہیں کرتا تھا آج وہاں کوئی خالی گھر نہیں ملتا۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی رائل پارک اور لکشمی چوک کی، کبھی لکشمی چوک پر تانگوں کا اڈا ہوتا تھا جو بھاٹی گیٹ جانے کے لئے آوازیں لگایا کرتے تھے۔ نسبت روڈ پر ہندوئوں اور سکھوں کے کئی قدیم مکانات آج بھی قائم ہیں۔ یہاں کی گلیاں نسبتاً صاف ستھری ہیں۔ کبھی یہاں کچا نسبت روڈ بھی ہوا کرتا تھی۔ کئی برس قبل لکشمی چوک میں ایک بہت بڑا رائونڈ ابائوٹ یعنی گول چکر بھی تھا جس پر سفید اور کالے رنگ کی چوڑی چوڑی پٹیاں لگی ہوتی تھیں۔ اب تو صرف سمن آباد اور ماڈل ٹائون میں ایک دو گول چکر رہ گئے ہیں۔ یہ گول چکر ٹریفک کو رواں رکھنے میں بڑے معاون تھے۔ کبھی ضلع کچہری، گورنمنٹ کالج لاہور کے پاس اور بھاٹی گیٹ میں بھی بہت بڑا گول چکر ہوتا تھا اور رات کو کئی مالشیے اپنا تیل اور مالش کا سامان لے کر وہاں بیٹھے ہوتے تھے اور لوگ وہاں پر مالش کرا رہے ہوتے تھے۔ بھاٹی چوک، حضوری باغ اور راوی روڈ کے علاقے بھی بھی مالشیوں کا گڑھ تھے۔ ایک زمانے میں لاہور کی کئی سڑکوں پر قائد اعظمؒ کے ارشادات، علامہ اقبالؒ کے اشعار اور محمد بن قاسم کے بڑے بڑے سائن بورڈز نظر آتے تھے۔ پھر وہ بھی غائب ہو گئے۔ اس خوبصورت اور تاریخی شہر کی ہر روایت کو ختم کرنے میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس شہر لاہور میں ایک ایسا سینما بھی رہا جہاں مسلسل 104برس تک فلمیں دکھائی جاتی رہیں۔ 1918ء سے 2012ء تک یہ سینما ہائوس کام کرتا رہا۔ اس کا پہلا نام عزیز تھیٹر، پھر رائل ٹاکیز اور پھر پاکستان ٹاکیز بن گیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی سینما گھر کو محفوظ کیا جائے اور اسے بحال کیا جائے۔ والڈ سٹی والوں نے دعوے تو بہت کئے ہیں مگر شاید کچھ اندر کی کہانیاں ہوں اور دوسرا والڈ سٹی اتھارٹی بھاری فنڈز کے باوجود محض کاغذوں میں ہی کام کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہ لوگ اس ادارے سے وابستہ ہیں جو اس شہرِ بے مثل کی تاریخ سے سرے سے آشنا ہی نہیں اور اندرون شہر کی تاریخ کو محفوظ کرنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

گوالمنڈی میں بھی ایک تاریخی سینما ایروز تھا۔ اب اس کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ایروز کو گرا کر اس کے پلاٹ بنا دئیے گئے۔ کبھی پاکستان میں ساڑھے آٹھ سو سینما گھر ہوا کرتے تھے اور سالانہ سو کے قریب فلمیں بنتی تھیں۔ لاہور کے کئی تاریخی سینما گھر گرا دئیے گئے ہیں۔ کہیں مارکیٹیں اور کہیں پہ مکان بن گئے ہیں۔ لاہور میں ایک ایسا اسکول بھی ہے جس کے اندر سینما گھر ہے۔ اس تاریخی رائل پارک میں کبھی اوم پرکاش، دیو آنند، بی آر چوپڑہ، پران، شمشاد بیگم اور کئی نامور اداکار آیا کرتے تھے اور پاکستانی اداکاروں کی تو اکثریت اس علاقے کے چکر کاٹا کرتی تھی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین