• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں کسی کنگ کو برا سے نہیں … صرف اس ملک کی آستینوں میں چھپے رنگین سانپوں سے ڈرتا ہوں، کفار سے نہیں منافقوں سے خوفزدہ ہوں، مجھے خطرہ کسی ”موشے دایان“ سے ہرگز نہیں بلکہ ”لارنس آف عریبیہ“ سے ہے جس نے میری بھلائی، بہتری، ترقی کا نقاب اوڑھ رکھا ہے اور دیکھنے سننے کی حد تک مجھ سے بہتر مسلمان اور پاکستانی دکھائی دیتا ہے۔
شخصیت پرستی کی طلسمی عینکیں اتار کر دیکھیں تو یہ سب آپ کو صاف دکھائی دیں گے لیکن یہ بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ کوئی محمود ہو تو بت شکنی ممکن ہے جبکہ ”شخصیت شکنی“ کیلئے محمود غزنوی سے زیادہ حوصلہ اور ہمت درکار ہے۔
عوام نے ان سے کبھی چاند اور سورج نہیں مانگے ۔
کسی نے ان سے دودھ کی نہروں اور شہد کے چشموں کا مطالبہ نہیں کیا لیکن یہ تو عوام کو وہ کچھ دینے پر بھی راضی نہیں جس پر کوئی لاگت نہیں آتی۔ یہ مال اندیش سیاسی تاجر اور جمہوری صنعت کار صرف مال بنانے میں ہی دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ ہر قیمت پر اپنا سفلا جاہ و جلال بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں ورنہ برسوں بیت گئے یہ بک بک سنتے ہوئے کہ ”تھانہ کلچر“ تبدیل کر کے رکھ دیں گے لیکن ایسا ہوا کبھی نہیں اور ہو گا بھی نہیں کیونکہ اسی تھانے، پٹوار خانے اور کچہری کلچر کے بل بوتے پر تو یہ اقتدار میں آتے ہیں۔ کوئی مجھے بتائے کہ بدبودار بلیو بک تبدیل کرنے پر کتنی لاگت آتی ہے جس کے نتیجے میں پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر عوام کی تذلیل کا کاروبار بند ہو سکتا ہے لیکن ان میں سے کوئی کبھی یہ ”رسک“ نہیں لے گا کیونکہ عوام کی ”نمائندگی“ ہی یہ ہے کہ ان کے خلاف قانونی درندگی سے لطف اندوز ہوا جائے۔ ادھر وہ عوام ہیں جو صدیوں غلام رہنے کے بعد بے عزتی کرنا حکمرانوں کا اور بے عزتی کرانا اپنا ”استحقاق“ سمجھتے ہیں ورنہ ان کے پروٹوکول سمیت انہیں راکھ اور خاک میں تبدیل کر دیں۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ جس کھیت سے کسان کو روٹی میسر نہ ہو اس کھیت کی ساری فصل کو جلا کر بھسم کر دینا چاہئے اور وہ جو پیر منیر کہتا ہے
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہئے
ملتی نہیں امان ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے
اقبال سے لے کر منیر تک سب ایک مدت سے بغاوت پر اکسا رہے ہیں لیکن غلاموں کو کوئی ”سپارٹکس“ ہی میسر نہیں جو ان کی آزادی کیلئے اپنی جان پر کھیل جائے۔ بغاوت زندگی کی علامت ہے۔ حاضر و موجود سے بیزاری کا جو سبق اقبال دیتا ہے وہ اس لئے کہ یہ بیداری کی علامت ہے لیکن یہ بھی طے کہ دنیا کے کسی قبرستان سے آج تک صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ پنجرے کا پنچھی پنجرہ کھل بھی جائے تو پنجرے کا طواف کر کے رضا کارانہ طور پر پنجرے میں واپس جا گھستا ہے۔ سو ذہنی طور پر تیار رہو کہ پھر دکھاوے کے سطحی، نمائشی، آرائشی کام ہوں گے … حقیقی تبدیلی کا سایہ تک اس سرزمین پر پڑنے نہ دیا جائے گا۔
ایٹم بم بنا لئے، سٹیل ملیں کھڑی کر لیں، موٹر وے لٹا دی، میٹرو جیسے جھاکے اور جھنجھنے عوام کے ہاتھوں میں تھما دیئے، آئینی ترمیمیں بھی کر لیں، صوبے بھی ایجاد کر لئے لیکن عوام کے سر پر تھانیدار اور پٹوار کا چھتر بدستور موجود، تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ڈرامے، ٹوپی ڈرامے اور نوٹنکیاں بہت لیکن آج بھی دیکھ لو کتنے بچے تعلیم کے بنیادی ترین حق سے محروم کہ یہی مقدر ہے۔ کوئی دور رس ، معنی خیز، حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔ نہ پروٹوکول کلچر تبدیل ہو گا نہ تھانہ کلچر پر کوئی خراش آئے گی کیونکہ یہی سب کچھ تو ان کی ”آکسیجن“ ہے۔ ابھی چند روز پہلے تک قصور میں چھوٹے پولیس ملازمین کی بھرتیاں ہو رہی تھیں۔ اچانک خبر آئی کہ ”بین لگ گیا“ اور وجہ اس کے سوا اور کیا ہو گی کہ جب آئیں گے تو اپنے بندے بھرتی کرائیں گے۔ اس ملک میں تو یہ بھی ہو چکا کہ جو پولیس کو مطلوب تھے … وہی پولیس میں بھرتی کر لئے گئے۔ نواز شریف اپنی انتخابی مہم کے دوران جگہ جگہ عوام سے پوچھتے تھے
”میرے قدم سے قدم ملاؤ گے؟“
”میرے کندھے سے کندھا ملاؤ گے؟“
میں ہنستا تھا۔ کون سے قدم اور کیسے کندھے، کہاں کے کندھے؟ ان سے تو ان کے ”ذاتی“ ایم این اے ، ایم پی اے نہیں مل سکتے پھٹے ہوئے قدموں اور جھکے ہوئے کندھوں کی تو ایسی تیسی …… اگلے الیکشن تک چھٹی، جب ہوں گے تب یہ پھر ”کلوز اپ“ میں دکھائی دیں گے۔
تازہ ترین